ضلع ورنگل میں وزیر فینانس ای راجندر کی آبائی اراضی پر قبضہ

عہدیداروں کی ملی بھگت سے پٹہ دار کا نام بھی تبدیل ، حکومت کیلئے لمحہ فکر
حیدرآباد۔/2ستمبر، ( سیاست نیوز) سرکاری اور خانگی اراضیات پر غیر مجاز قبضے کوئی نئی بات نہیں لیکن تلنگانہ حکومت کو اس وقت حیرت ہوئی جب غیر مجاز قابضین نے وزیر فینانس ای راجندر کی آبائی اراضی پر قبضہ کرلیا۔ تلنگانہ میں کے سی آر کی زیر قیادت ٹی آر ایس حکومت سرکاری، وقف اور بودھان اراضیات پر ناجائز قبضوں کی برخواستگی کا مہم کا آغاز کرچکی ہے لیکن اسے اب خود اپنے وزیر فینانس کی آبائی اراضی کے تحفظ میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ بتایا جاتاہے کہ ورنگل ضلع میں غیر مجاز قابضین نے عہدیداروں کی ملی بھگت کے ذریعہ نہ صرف اراضی پر قبضہ کرلیا بلکہ ریونیو ریکارڈ میں پٹہ دار کے نام کو بھی تبدیل کردیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ورنگل ضلع کے نلہ بیلی منڈل کے ارشنا پلی علاقہ میں وزیر فینانس ایٹالہ راجندر کے ننہیال کی آبائی اراضیات موجود ہیں، ان کی نانی کو چار لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں جن میں ایٹالہ راجندر کی والدہ ایٹالہ وینکٹماں بھی ایک ہیں۔ آباء واجداد نے ان بچوں کیلئے گاؤں کے مضافاتی علاقہ رامچندرا پورم میں سروے نمبر 639/1 میں 44ایکر اراضی خریدی تھی۔ 1956ء میں عمر خاں نامی شخص سے یہ اراضی خریدی گئی تھی اور 1976ء میں پٹہ دار پاس بک بھی جاری کردی گئی۔ اس اراضی میں ای راجندر کی والدہ کا بھی وراثت کے طور پر حصہ شامل ہے۔ کئی برسوں سے اس اراضی کے خالی ہونے کے سبب غیر مجاز قابضین نے ریونیو ریکارڈ میں تبدیلیاں کرتے ہوئے 2002ء میں اراضی پر قبضہ کرلیا۔ ریونیو حکام بعض درمیانی افراد کی ملی بھگت کے ذریعہ 44 ایکر کے منجملہ 20ایکر قبضہ کرلیا اور بتایا جاتا ہے کہ اسے بعض افراد کو فروخت کردیا گیا۔ ایٹالہ راجندر کے رشتہ داروں کے مطابق 1956میں خریدی گئی اس اراضی کا ریکارڈ 2002تک درست تھا لیکن بعد میں غیر مجاز قابضین اور عہدیداروں کی ملی بھگت کے باعث 20ایکر اراضی ریکارڈ سے غائب ہوگی۔ ملگ علاقہ کے تحصیلدار، آر ڈی او اور ضلع کلکٹر کو اس سلسلہ میں نمائندگی کی گئی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ وزیر فینانس ایٹالہ راجندر کی مداخلت کے بعد ریونیو حکام نے اس معاملہ کی جانچ کا آغازکیا ہے تاہم وہ فوری طور پر اس اراضی کے حصول کے موقف میں نہیں ہیں کیونکہ بنیادی ریکارڈ کو ہی تبدیل کردیا گیا اور پٹہ دار کا نام ریکارڈ میں دوسرا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تلنگانہ حکومت اپنے وزیر کی آبائی اراضی کا کس طرح تحفظ کرپائے گی۔