تلنگانہ وقف بورڈ نے آئندہ مالیاتی سال کے لیے تیاریاں شروع کردی
حیدرآباد۔/4اکٹوبر، ( سیاست نیوز) تلنگانہ وقف بورڈ نے آئندہ مالیاتی سال کیلئے حکومت سے بجٹ کے حصول کیلئے اپنی ضرورت کا جائزہ لینا شروع کیا ہے۔ چیف ایکزیکیٹو آفیسر محمد اسد اللہ اور دیگر عہدیداروں نے تمام انسپکٹر و آڈیٹرس وقف بورڈ کا اجلاس طلب کرتے ہوئے ہر ضلع میں درکار بجٹ کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ 27نئے اضلاع کے اعتبار سے وقف بورڈ نے حکومت سے فنڈز حاصل کرنے کی تیاری شروع کردی ہے۔ گذشتہ برسوں میں اکثر یہ دیکھا گیا کہ وقف بورڈ علی الحساب فنڈز کیلئے تجاویز پیش کرتا رہا ہے تاہم آئندہ مالیاتی سال کیلئے چیف ایکزیکیٹو آفیسر نے ضرورت کے مطابق فنڈز حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وقف بورڈ کی کارکردگی کو بہتر بنایا جاسکے اور اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے سلسلہ میں کسی مالی دشواری کا سامنا نہ رہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب بجٹ کی تیاری کے سلسلہ میں انسپکٹرس آڈیٹرس کی تجاویز حاصل کی گئیں۔ تمام اضلاع سے تعلق رکھنے والے انسپکٹرس نے اپنی دشواریوں اور ضرورتوں سے واقف کرایا۔ ہر ضلع میں وقف بورڈ کا ایک انسپکٹر آڈیٹر موجود ہے جس کیلئے کوئی ماتحت اسٹاف یا علحدہ دفتر تک موجود نہیں۔ ضلع میں موجود کروڑوں روپئے مالیتی ہزاروں اوقافی جائیدادوں کی نگرانی کیلئے صرف ایک انسپکٹر کی موجودگی انتہائی ناکافی ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے وقف بورڈ نے ہر ضلع میں اسٹاف کی تعداد میں اضافہ کی تجویز رکھی ہے۔ ہر ضلع میں وقف آمدنی اور اخراجات کا بھی جائزہ لیا گیا اور ڈسمبر کے اوائل تک حکومت کو بجٹ کے سلسلہ میں بورڈ کی جانب سے تجاویز پیش کردی جائیں گی۔ انسپکٹرس سے کہا گیا ہے کہ وہ جلد سے جلد اپنی سفارشات پیش کردیں تاکہ انہیں بجٹ تجاویز میں شامل کیا جاسکے۔ حکومت کی جانب سے وقف بورڈ کو جو گرانٹ دی جاتی ہے وہ اوقافی جائیدادوں کی ترقی کیلئے امداد اور دیگر اُمور پر خرچ کی جاتی ہے۔ 27 اضلاع کے قیام کی صورت میں بورڈ نے موجودہ اسٹاف کو اضلاع میں متعین کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہر ضلع میں صرف ایک عہدیدار کے بجائے کم سے کم 3 ملازمین کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ انسپکٹر وقف کے تحت کمپیوٹر آپریٹر اور ایک اٹینڈر کی خدمات دستیاب رہیں گی۔ اس کے علاوہ ہر ضلع میں وقف بورڈ کا علحدہ دفتر قائم کیا جائے گا تاکہ باقاعدہ طور پر کام بہتر انداز میں انجام دیاجاسکے۔ ہیڈ کوارٹر سے کسی بھی جائیداد کے سلسلہ میں رپورٹ طلب کرنے پر انسپکٹر آڈیٹر کو طویل مسافت کی زحمت اٹھانی پڑتی ہے۔ اس بارے میں انسپکٹر آڈیٹرس کی نمائندگی کو دیکھتے ہوئے ہر ضلع میں کم سے کم ایک گاڑی فراہم کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔