ضرورتِ نبوت

علامہ سید احمد سعید کاظمی
مقصد تخلیق کے حصول کا موقوف علیہ ہمیشہ ضروری ہوا کرتا ہے، انسان معرفت الہیہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور خدا کی معرفت کا حامل ہونا نبوت و رسالت کے بغیر ممکن نہیں، اس لئے نبوت و رسالت کا وجود انسان کے لئے ضروری ہے۔ منکرین نبوت کا یہ کہنا علم و عقل کی روشنی میں قطعی باطل ہے کہ ’’جب انسان کے پاس حواس اور عقل دونوں موجود ہیں تو اسے نبوت و رسالت کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘، جب کہ خدا کی معرفت حاصل کرنے کے لئے نہ یہ حواس کافی ہیں اور نہ ہی عقل۔ جن لوگوں نے خدا کی معرفت کے لئے حواس کو کافی سمجھا، وہ محسوسات و مظاہر کائنات کی پرستش میں مبتلا ہو گئے اور جنھوں نے عقل پر اعتماد کیا، ان میں اکثر لوگ خدا کے منکر ہو گئے اور جو صریح انکار کی جرأت نہ کرسکے، انھوں نے ذات و صفات کے مسائل میں ایسی ٹھوکریں کھائیں کہ معرفت کی راہوں سے بہت دور جاپڑے اور عقل ناتمام کی وادیوں میں بھٹک کر ظنون و اوہام کے گڑھوں میں جاگرے۔ قرآن کریم نے ایسے ہی لوگوں کے حق میں ارشاد فرمایا کہ ’’… جو لوگ خدا کا شریک مانتے ہیں، اس کو شریک سمجھ کر پکارتے ہیں، وہ اپنے خیالات کے تابع ہیں، ان کے سارے خیالات اَٹکل ہیں اور واہی تباہی گمان ہیں‘‘۔ (سورۂ یونس۔۶۶)

رہا یہ امر کہ خدا ہے یا نہیں ؟ اور اگر ہے تو اس کی معرفت ضروری ہے یا نہیں؟ تو یہ ایک علحدہ موضوع ہے۔ یہاں صرف اتنا عرض کردینا کافی ہے کہ مصنوع کا وجود صانع کے وجود کی دلیل ہے اور مصنوع کی تخلیق کسی حکمت و مقصد کے بغیر نہیں ہوتی اور کسی مصنوع کی حکمت تخلیق کا فوت ہو جانا اس مخلوق کے عبث ہونے کو مستلزم ہے۔ انسان کے اوصاف و خواص اس امر کی دلیل ہیں کہ وہ اپنے خالق کا مظہر ہے، اب اگر وہ اس حقیقت کو پہچاننے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود بھی نہ پہچانے تو اس نے خود اپنے وجود کو عبث قرار دیا، اور اگر پہچانے تو چوں کہ وہ ذات باری تعالی کا مظہر ہے، لہذا اپنے آپ کو صحیح معنی میں پہچاننا دراصل اپنے خالق کو پہچاننا ہے، جیسا کہ مشہور ہے ’’جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا‘‘۔ لہذا ثابت ہو گیا کہ معرفت خداوندی کے بغیر انسان کا وجود عبث ہے اور اگر انسان چاہتا ہے کہ میرا وجود عبث نہ ہو تو معرفت الہیہ کے بغیر اس کے لئے کوئی چارہ کار نہیں۔

قانون فطرت یہ ہے کہ ہر نوع کے مدرکات کو معلوم کرنے کے لئے اسی نوع کا ادراک عطا کیا گیا ہے، مثلاً مبصرات کو جاننے کے لئے ادراک بصری اور مسموعات کے لئے ادراک سمعی۔ علی ہذا القیاس پانچوں حواس کو لیجئے ہر نوع محسوس کے لئے اسی نوع کا حاسہ ہمارے اندر پایا جاتا ہے۔ اس کے بعد معقولات کا وجود ہے، جنھیں معلوم کرنے کے لئے عقل عطا فرمائی گئی۔ ادراک انسانی کی تگ و دو، حواس و عقل سے آگے نہ تھی، مگر اس کی ضروریات کا تعلق ان دونوں سے آگے تھا، جسے عالم غیب کہا جاتا ہے۔ جب تک اس عالم تک کسی کی رسائی نہ ہو، اس مقام کے ساتھ متعلقہ انسانی ضرورتیں پوری نہیں ہوسکتیں۔ نبوت، جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے ’’اطلاع علی الغیب‘‘ ہی کا نام ہے، لہذا انسانی ضرورتوں کے پورا ہونے کے لئے نبوت کا ہونا ضروری ہے۔
حاسہ سبب ادراک ہے اور اس سے غلطی بھی واقع ہو جاتی ہے، لہذا اس کے ازالہ کے لئے عقل کا اس پر حاکم ہونا ضروری تھا۔ مگر جب عقل بھی ٹھوکر کھائے تو اس کا ازالہ نہ عقل کرسکتی ہے نہ حواس، کیونکہ حواس اس عقل کے محکوم ہیں اور عقل بحیثیت عقل ہونے کے مساوی ہے، لہذا ضروری ہوا کہ عقل پر ایسی چیز کو حاکم تسلیم کیا جائے، جو غلطی سے پاک ہے اور وہ نبوت ہے، کیونکہ نبوت ہی غلطی سے مبرا ہے، لہذا اختلاف عقل کی مضرتوں سے بچنے کے لئے ’’نبوت‘‘ کو ماننا ضروری ہے۔ نبوت کا غلطی سے پاک ہونا ہی عصمت نبوت کا مفہوم ہے۔ معلوم ہوا کہ ’’عصمت‘‘ لوازم نبوت سے ہے، اس مقام پر زلات انبیاء کرام علیہم السلام سے وہم پیدا کرنا دروست نہیں۔
شاید اس بیان کی روشنی میں ضرورت نبوت کے ساتھ اجرائے نبوت کا شبہ پیدا کرلیا جائے، اس لئے گزارش ہے کہ ضرورت نبوت سے اجرائے نبوت ہرگز لازم نہیں آتا۔ اللہ تعالی نے اپنی حکمت کے مطابق خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت مبعوث فرمایا، جب کہ نوع انسانی اپنی حیات کے منازل طے کرتی ہوئی ایسے مرحلہ پر پہنچ گئی تھی کہ اس کے لئے جو نظام مقرر کیا جائے، قیامت تک اس کی تمام ضروریات کے لئے وہی قابل عمل ہو۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ’’میں نے آج تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور میں نے تمہارے لئے تمہارے دین اسلام کو پسند کرلیا‘‘۔ (المائدہ۔۳)
یہ ارشاد خداوندی منکرین ختم نبوت کے اس شبہ کا قلع قمع کرنے کے لئے کافی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبوت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے ایسا دین وابستہ ہے، جو قیامت تک پیش آمدہ ضروریات کے پورا ہونے کا واحد ذریعہ ہے۔ نبوت و رسالت محمدیہ ہی بنی نوع انسان کے ہر فرد کے لئے ضروری ہے، اس کے بعد کسی کو نبوت دیا جانا متصور نہیں۔ ضرورت نبوت کے لئے اجرائے نبوت کو لازم سمجھنا کمال دین کے منافی ہے۔ ضرورت نبوت کے بعد حکمت بعثت پر بھی غور کرتے چلیں، تاکہ عصمت و نبوت کا باہمی تعلق اور زیادہ واضح ہو جائے۔

قرآن کریم میں بعثت انبیاء علیہم السلام کی حکمت بکثرت آیات میں بیان کی گئی ہیں اور انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت سے متعلق حسب ذیل حکمتوں کی نشاندہی کرتی ہیں:
٭  اللہ تعالی کے بندوں سے اللہ تعالی کی اطاعت کرانا۔
٭  عالم غیب سے متعلق آخرت کی نعمتوں کی خوش خبری دینا اور عذاب الہی سے ڈرانا۔
٭  اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا نجات اخروی اور سعادت ابدی کے لئے شرط ہونا۔
٭  اطاعت رسول کا اطاعت خداوندی ہونا، تاکہ بندوں کے لئے اطاعت الہی کی راہ متعین ہو جائے۔
٭  آیات الہیہ کو تلاوت کرنا۔
٭  ایمان والوں کا ظاہر و باطل پاک کرنا۔
٭  کتاب الہی اور حکمت و دانائی کی تعلیم دینا۔
بیان سابق کی تفصیلات کو ذہن نشین کرنے کے بعد اگر نبوت و رسالت کے ان مناصب و بعثت انبیاء علیہم السلام پر غور کیا جائے تو یقیناً عصمت نبوت کا اقرار کرنا پڑے گا۔ کم از کم اتنی بات تو ہر شخص سمجھ رہا ہے کہ جس کام کے کرنے کی صلاحیت کسی میں نہ ہو، وہ کام اس کو سپرد نہیں کیا جاتا۔ ایک ظالم کو کرسی عدالت پر بٹھانا، اَن پڑھ آدمی کو علم و حکمت کی موشگافیوں کا کام سونپنا، کسی بدکار فاسق و فاجر کو عفیفات کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لئے متعین کرنا، بیمار و ناتواں کے سرپر بھاری بوجھ رکھ دینا اور گم کردہ راہ سے ہدایت طلب کرناکسی عاقل کا کام نہیں ہے۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان امور کی صلاحیتوں کے بغیر ہی اللہ تعالی ان کی انجام دہی کا منصب انبیاء علیہم السلام کو سونپ دے؟۔
جب یہ ممکن نہیں تو ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالی نے منصب نبوت کے ساتھ وہ تمام قوتیں اور صلاحیتیں بھی انبیاء کرام علیہم السلام کو عطا فرمائی ہیں، جن کا ہونا ان کے لئے ضروری تھا اور یہی عصمت کا مفہوم ہے، جس کے بغیر نبوت ایسی ہے جیسے بینائی کے بغیر آنکھ اور روشنی کے بغیر سورج۔ (اقتباس)
(مرسل: قاضی ابوذکوان)