صیہونیوں کی تاریخ سے ہی کوئی سبق لیاجائے۔

مسلمانوں نے کبھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ کوئی سنجیدہ تحقیق صدیوں پر محیط اس جدوجہد پر بھی کرلی جائے جس کے ذریعہ صیہونیوں نے یہ نامممکن کام ممکن کردیکھایا
فسلطین کے 500سے زائد گاؤں اب دنیا کے نقشے پر موجود نہیں ہیں لیکن تعجب کی بات یہ تھی کہ یر موک کیمپ میں ان کا نام زندہ تھا۔ ارض فسلطین کا ہر گاؤں کسی خاص چیز کے لئے معروف تھا۔ راقم کو ایڈمنٹن میں شام سے ہجرت کرنے والی اس کی ایک فلسطینی دوست امینہ نے بتایا کہ اس کی فلسطینی والدہ اسے بتاتی تھیں ‘ صفوریہ گاؤں کی شہرت ختنہ کرنے والے افراد کے حوالے سے تھی‘۔یرموک کیمپ ہی میں اویس کے والدین نے شادی کی او ریہیں اویس اور اس کے تین بھائی بہن پیدا ہوئے۔

نام نہاد بہار عرب کی ابتداء شام میں مقیم فلسطینی بشار الاسد کے ساتھ تھیان کی پی ایل او کی فوج نے بشارالاسد کے ساتھ دیتے ہوئے باغیوں کے خلاف یرموک کیمپ کا دفاع بھی کیا۔ شام اور مشرقی وسطیٰ کے فلسطینیوں نے بہار عرب کے آغاز میں فلسطین واپس جانے کے لئے سوشیل میڈیا پر ایک مہم چلائی اور ایک خاص تاریخ کو شام اور فلسطین کی سرحد پرجمع ہونے کی منصوبہ بندی کی۔فیس بک نے ا س مہم کے پیچ کو بلاک کردیا‘ اس کے باوجود بڑی تعداد میں فلسطینی بارڈر پرپہنچے‘ انہوں نے سرحد پارکرکے فلسطین پہنچنے کی کوشش کی۔سرحد پر اسرائیلی فوجیوں کی فائیرنگ سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔

یہ ہجوم واپس یرموک کیمپ پہنچا توکسی نے پی ایل او کے دفتر پر فائیرنگ کردی۔ فائیرنگ کس نے کی یہ معلوم نہ ہوسکا مگر فلسطینیوں کا غصہ اسرائیل سے بشارالاسد کی طرف مڑ گیا او ربشار کے مغربی حمایت یافتہ باغیوں کے ساتھ مل گئے۔ نتیجے میں شامی فوج اور باغیوں کے درمیان تصادم کے دوران 2016میں اس خاندان کو ایک بار پھر ہجرت کرنی پڑی۔ اب ان کی منزل لبنان کا شہر صیدون تھا۔

صیدون میں اویس اور احمد نے ایک ٹشو پیپر فیکٹری میں بارہ بارہ گھنٹے کامکرکے گزارا کیا۔یہ موئید خاندان کی دوسری ہجرت تھی جو انہیں شام میں خانہ جنگی کی وجہہ سے کرنی پڑی۔ آخر کار احمد کے بھائی نے جو کینیڈا میں مقیم تھے انہیں کینیڈا کے لئے اسپانسر کیا‘ یوں یہ شامی مہاجرین کے اولین جہازوں کے ساتھ کینیڈا میں وارد ہوئے ۔ احمد کا کہنا ہے کہ کینیڈا میں امن ہے اس لئے وہ لوگ یہاں خوش ہیں۔ حیات جس کی عمر 48سال ہے اپنے بہن بھائیوں اور والدہ کو یاد کرتی ہیں جو اب سویڈن جرمنی منتقل ہوگئے ہیں‘ ن کا کہنا ہے کہ ’ہمارا سارا خاندان بکھر گیا‘۔چارنسلوں اور متعد د بار ہجرت کے بعد آج بھی ان کے گھر میں گنبد صخرہ کی جہازی سائز تصوئیر اس بات کاثبوت تھا کہ یہ خاندان 70دہائیوں بعد بھی اپنے آبائی وطن فلسطین کو نہیں بھول سکا‘ وہ وطن جہاں ان میں سے کسی کو آج تک قدم رکھنا نصیب نہ ہوا۔

طہٰ محمد علی لبنان سے واپس آکر صفوریہ میں تو نہ رہ سکا مگر اس نے ناصرہ میں عیسائی زائرین کے ایک گفٹ شاپ کھول لی۔ اس کی دکان اس چرچ کے برابر میں تھی جہاں عیسائی روایت کے مطابق حضرت مریم عبادت کرتیں اور جہاں حضرت جبریل نمودار ہوئے اور انہیں ایک بیٹے کی خوشخبری دی۔ روایت کے مطابق یہیں انہو ں نے حمل کے دن گزارے اور یہیں حضرت عیسیٰ کی ولادت ہوئی۔یہ چرج اننوسیشن کہلاتا ہے عیسائی مذہب کی مقدس ترین زیارت گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔طہٰ برطانوی مینڈیٹ کے دوران صفوریہ میں پیدا ہوا اور اسے 17سال کی عمر میں اسرائیلی بمباری کی وجہہ سے اپنے خاندان سمیت فلسطین چھوڑنا پڑا۔

وہ پڑھا لکھانہ تھا مگر اپنے گھر کی یاد نے اسے شاعری کرنے پر مجبور کردیا۔ اپنے گاؤں صفوریہ سے متعلق اس کی شاعری نے عربوں کو ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کو متوجہ کیا۔ متعدد زبانوں میں اس کے متراجم ہوئے۔ ایک برطانوی تنقید نگا ادیا نہ ہاف مین نے اسے سب سے ’مسرت بخش شاعر‘ کا خطاب دیا۔ بعد ازاں ییل یونیورسٹی امریکہ کی ایک یہودی طالبہ نے اس کی زندگی پر کتاب لکھی جس میں طہ کے بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کے سفر کے علاوہ فلسطینیوں کی حالت زار کے مختلف ادوار کی تاریخ کو بھی بیان کیا۔

اس طرح یہ صرف ایک سوانح نہیں بلکہ برطانوں عہد سے لے کر فلسطینی عربوں جن میں عیسائی ‘ یہودی اور مسلمان سب ہی شامل تھے کی پوری تاریخ ہے۔ ایک عرب اسکالر مائیکل سیلز کا کہا ہے کہ یہ کتاب عرب اسرائیل سانحہ پر لکھی جانے والی پانچ بہترین کتابوں میں سے ایک ہے ۔ کتاب ابتداء میں ایک ایسے دور کی عکاسی بھی کرتی ہے جب عثمانی دور میںیہ تینوں مذاہب فلسطین میں امن کے ساتھ مل جل کررہتے تھے۔ آج تہذیبوں کے تصادم کے شور میں مشرقی وسطی کی یہ تاریخ بہت منفرد ہے۔

صیہونیوں کے فلسطین پر مظالم کے خلاف بہت سے انصاف پسند یہودی بھی آواز اٹھاتے ہیں۔ ییل یونیورسٹی کی ادیانہ بھی ان میں سے ایک ہیں۔ طہ ناصرہ ہی میں 2011میں انتقال کر گیا۔ صیہونیوں نے فلسطین آسانی سے حاصل نہیں کیا۔آج’القدس ‘ القدس‘ چلانے والے مسلمان‘ اپنے جلسح جلوسوں میں قبلہ اول کے نام پر آنسو بہاتے ہیں لیکن کبھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ کوئی سنجیدہ تحقیق صدیوں پر محیط اس جدوجہد پر بھی کرلی جائے جس کے دریعہ صیہونیوں نے یہ ناممکن کام کردکھایا اور تاریخ کے اس اہم باب سے کوئی سبق سیکھا جائے۔