صوتی آلودگی

انسانی صحت پر ماحول بڑی حد تک اثراندازہوتاہے ،ہم جس ماحول میں رہتے ہیں اس سے ہم اپنے آپ کو جدانہیں رکھ سکتے ، ماحولیات کی حفاظت سارے انسانوں کا فریضہ ہے۔ دریا ،نہریں،سمندر،کھیت کھلیان،درخت ،پودے ،جنگلات ،چرند،پرند،حشرات الارض وغیرہ ماحول کی حفاظت میں اہم کرداراداکرتے ہیں،اورفضاء کو آلودہ ہونے سے محفوظ رکھتے ہیں ،اسکی وجہ حیوانات ،نباتات وغیرہ یہاں تک انسانوں کی زندگی اورانکی صحت کی برقراری کا سامان ہوتاہے۔فطری ماحول کی حفاظت کے لئے قدرت کے بنائے ہوئے نظام فطرت کوباقی رکھنے میں ہرانسان کو فکرمندبھی ہونا چاہیئے ۔تھوڑے سے مادی مفاد کی خاطرانکو تباہ وتاراج کرنے سے اجتناب بھی کرنا چاہئیے، جس طرح آب وہواکی کثافت اوراسکی وجہ ماحول کی آلودگی انتہائی مضرات رسا ں ہے ،شوروغل جسکو ’’صوتی آلودگی ‘‘سے تعبیرکیا جاتا ہے یہ بھی بے نہایت نقصان دہ ہے۔اس وقت زندگی کی گاڑی کا پہیا تیزی سے گردش کررہاہے،ماہ وسال پر لگاکر اڑرہے ہیں ،ہرکوئی نفسا نفسی کا شکارہے ،زندگی کی بھاگ دوڑمیں ایسے کھویا ہواہے کہ دوسرے کی اسکوکوئی خبر نہیں ۔کرئہ ارض کی بڑھتی آلودگی جہاں صحت وزندگی کے مسائل پیداکررہی ہے وہیں شوروشرابہ انسانی صحت کے لئے مسائل پیداکرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ بنا ہواہے۔شہری آبادیوں میں کئی قسم کے شورہیں جسمیں انسان اپنی زندگی کا سفرطے کررہے ہیں،بے ہنگم ٹریفک،موٹر،ریل گاڑیوں،کاروں،فیکٹریوں،کارخانوں ، مشینوںاورہوائی جہازوغیرہ سے پیدا ہونے والا شورغیرمحسوس طورپر انسانی صحت کے ساتھ حیوانات وغیرہ کی صحت پر بتدریج اثرانداز ہے۔انسان کی جسمانی صحت کے ساتھ ذہنی صحت بھی داؤپر لگی ہوئی ہے،یہ سائنسی ایجادات جوانسانی معاشرہ میں اسباب راحت کی جگہ لے چکے ہیں اب یہ زندگی کا ایک نا گزیرحصہ بن گئے ہیں اسلئے انکی ضرورت سے انکارنہیں کیا جاسکتا لیکن انکے نقصانات کو کم سے کم کرنے کے اقدامات کو بروئے کارلاکر فضائی وصوتی آلودگی پر کسی حدتک قابوپایا جاسکتاہے اوراسکی وجہ ان سے پیداہونے والے شورکے نقصانات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔اسی لئے ہوائی اڈے شہری آبادیوں سے بہت دوربنائے جاتے ہیں ،کارخانوں اورفیکٹریوں وغیرہ کے قیام کی شہری آبادیوں میں قانونا اجازت نہیں دیجاتی،آبادیوں سے باہر ہی انکے قیام کی صورت میں اجازت نامہ منظورکیا جاتا ہے،اب رہا انسانوں کی ضرورت کی سواریاں جیسے موٹرسائیکل ،کاریں،لاریاں ،ٹرالے وغیرہ اگران سے دھویں کا اخراج زیادہ ہوتو وہ فضائی آلودگی پیداکرتے ہیں وہیں اس سے خارج ہونے والی بڑی آواز صوتی آلودگی کا باعث بنتی ہے۔اس سلسلہ میں حکومت کے قوانین بھی سخت ہیں ایک قانون تو دھواں زیادہ خارج کرنے والی گاڑیوں کے لئے ہے ،لیکن زیادہ آواز دینے والی گاڑیوں کے لئے غالبا قانونی کوئی گرفت نہیں ہے ،بعض گاڑیوں کے سیلنسرزیادہ آواز دیتے ہیں یہ آواز بسااوقات گاڑیوں کے انجن کی خرابی کی وجہ سے ہوسکتی ہے، اوراکثرنوجوانوں کے ذوق کی خرابی اسکی ذمہ دارہوتی ہے،چنانچہ کچھ نوجوان زیادہ شورپیداکرنے کے لئے سیلنسرمیں کچھ تبدیلی کرلیتے ہیں، ممکن ہے اس سے کچھ دیرکیلئے انکی بدذوقی کی تسکین ہوجاتی ہولیکن ماحول کی فطری حیثیت کو متاثرکرنے میں اسکا جو رول ہے اسکو ہر گز نظراندازنہیں کیا جانا چاہئیے۔سابقہ ادوارمیں صوتی آلودگی وفضائی آلودگی کے اسباب نہ ہونے کے برابرتھے،لیکن موجودہ دور سائنسی ایجادات کے نا روااستعمال کی وجہ پیداہونے والی فضائی آلودگی کے ساتھ صوتی آلودگی کا بری طرح شکارہے، صوتی آلودگی میں نمایاں رول اداکرنے والے موجودہ دورکے پر تعیش ٹیلی وـیژن،میوزک سسٹم وغیرہ گھر کے ماحول کے ساتھ باہر کے ماحول کو بھی آلودہ کررہے ہیں،شادی بیاہ یا کسی بھی طرح کی مسرت کی تقاریب وتفریحی پروگرام وغیرہ کا اس کے بغیربہت کم تصورپایاجاتاہے،ان مواقع پر بجائے جانے والے بیانڈ، باجے ،قوالیوں اورگانوں کی رکاڈنگ کا شوراس قدر زیادہ ہوتاہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ۔خاص طورپر شادی خانے اکثرجوانسانی آبادیوں کے درمیان میں ہیں انکے قرب وجوارمیں بسنے والے انسان بڑے کرب سے گزرتے ہیں۔صحت مند افرادکی صحت پر اس کے مضراثرات بھی تسلیم شدہ ہیں، اسکی وجہ انسانوں کے آرام اورانکی نیندمیں خلل کی وجہ بیماروں اورضعیفوں کے ساتھ صحت مند افراد کیلئے بھی یہ ایک گمبھیر مسئلہ ہے ۔اس غیرفطری شورشرابہ کی وجہ شہریوں کو جس کربناک صورتحال سے گزرنا پڑتا ہے اسکا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا،سماج کی اس بے حسی پر خون کے آنسوروئے جائیں تو کم ہے۔مزیدایسے مواقع پر آتش بازی جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔نیز دیوالی کے تہوارپر آتش بازی بھی محل نظرہے ،اس میں مال کے ضیاع کے ساتھ اس سے پھیلنے والے زہریلے بارودی دھویں کی وجہ بڑے پیمانہ پر فضاء کی مسمومیت کا نقصان بھی ہے اورصوتی آلودگی کی کربناکی وزہرناکی کاضرر بھی ۔صوتی آلودگی کے نقصانات جانچنے کا کوئی ایسا یقینی آلہ ایجاد نہیں ہوسکا ہے جو اسکے حتمی نقصانات کا تخمینہ بتا سکے ،

لیکن محققین کی رائے یہ ہے کہ صوتی آلودگی سے قوت سماعت کو شدید نقصان پہونچ سکتاہے ،ہائیپرٹینشن، ذہنی تناؤ،بے چینی،بے خوابی،قلبی واعصابی امراض شورکی دین ہیں۔اس وقت شورکو جانچنے کا ایک ہلکا پیمانہ ’’ڈیسی بل ‘‘ہے ،سائنسدانوں کے تحقیق کے مطابق زیرو) (0ڈیسی بل انسان کے کان محسوس کرسکتے ہیں ، اسکو ِسرّی آواز کہا جاسکتاہے ۔نماز پنجگانہ میں دو۔نمازیں سری ہیں اسکے علاوہ تنہاء پڑھے جانے والے نوافل وغیرہ بھی ’’سر‘‘ سے پڑھے جاتے ہیں،دعاء ومناجات جہرا بھی کی جاسکتی ہے لیکن اسکا اہتمام سرّا (آہستہ)ہو توزیادہ افضل ہے،اللہ سبحانہ کا ارشادہے’’اپنے پروردگارسے تم گڑگڑاکربھی اورآہستہ آہستہ بھی دعاکرویقینا اللہ سبحانہ ان لوگوں کو نا پسند فرما تا ہے جو حدودسے تجاوزکرجائیں‘‘۔(الاعراف:۵۵)حدیث پاک میں وار دہے ’’ائے لوگو! تم انپے نفس کے ساتھ نرمی کا برتاؤکرو یعنی آوازکودھیمی اورپست رکھو یہ جان رکھو کہ تم جسکو پکاررہے ہو وہ نہ بہرا ہے نہ غائب ہے بلکہ وہ تمہاری دعائیں سننے والا اورتم سے قریب ہے‘‘۔      (صحیح البخاری :کتاب الدعوات)زندگی کے اورمعاملات میں جس طرح حد سے تجاوز ناپسندیدہ ہے اسی طرح دعاء ومنا جات میں بھی تجاوز عن الحدکو پسندنہیں کیا گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں آوازکا دھیمہ پن کس قدرپسندیدہ ہے،اس میں روحانی فوائد کے ساتھ مادی فوائد بھی ملحوظ ہیں۔ بیس (۲۰) ڈیسی بل آواز ایک سرگوشی سے پیداہوتی ہے ،کسی پر سکون ماحول میں کام کاج کے دوران پیداہونے والی آواز چالیس (۴۰)ڈیسی بل ہوسکتی ہے ۔عام گفتگو جو کسی اورسے کی جاتی ہے وہ ساٹھ (۶۰) ڈیسی بل آواز پیداکردیتی ہے،اس حد تک تو آواز کا قابل برداشت ہونا فطری ہے،جہری نمازوں میں قرأت کی آوازکا درجہ کم وبیش اسی قدرہوتا ہے،دعاء ومناجات میں اگراس درجہ آواز بلندہوجائے تب بھی منع نہیں ،ارشاد باری ہے’’نہ تو اپنی نماز کو بہت بلند آواز سے پڑھو اورنہ بالکل پست آواز سے بلکہ درمیانی راستہ اختیارکرو‘‘(بنی اسرائیل :۱۱۰)نبی رحمت سیدنامحمد رسول اللہ ﷺ نے ایک رات حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ بہت دھیمی آوازمیں مصروف مناجات ہیں ،پھر حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو بھی دیکھا کہ وہ بلندآوازسے نماز پڑھ رہے ہیں صبح جب ان دونوں سے ملاقات ہوئی توآپ ﷺ نے دریافت فرمایا، دونوں نے اسکی توجیہ بیان کی، حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں اس کی بارگاہ میں مصروف دعاتھا جو میری آواز سن رہا تھا ،حضرت عمررضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ جہرسے سونے والوں کو جگا نا اورشیطان کو بھگانا مقصودہوتاہے، نبی رحمت سیدنا محمدرسول اللہ ﷺنے حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کو اپنی آوازقدرے بلندرکھنے اورحضرت عمررضی اللہ عنہ کو اپنی آواز قدرے پست کرنے کی ہدایت فرمائی۔ (مشکوٰۃ المصابیح :باب صلاۃ الیل)  البتہ یہ آواز بلند ہوکر اسی (۸۰) ڈیسی بل تک پہونچ جائے تو یہ شورپیداکرکے ماحول کو متاثرکرنے کا سبب بن سکتی ہے ،اسلئے جب کبھی درس یا تقریر ومواعظ کی ضرورت داعی ہو تو ظاہر ہے اس قدرآواز کی بلندی ضروری ہوجاتی ہے ،ایسے میں اسلامی ہدایات یہ ہیں کہ جن تک آواز پہونچانی ہو ان تک آواز پہونچانے کا انتظام ہو، تاکہ وہ تذکیر ونصیحت سے فائد ہ حاصل کرسکیں۔قرآن پاک کی تلاوت عبادت ہے اگرکوئی تلاوت کرنا چاہے تو اسکو اپنی حال وماحول کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے اگرکوئی قرب وجوارمیں آرام کررہاہو یا کسی اورکام کاج میں مصروف ہو تو بلند آواز سے تلاوت کو پسندنہیں کیا گیا،عام طورپر ہمارے ماحول میں وعظ وتقریر یا تلاوت وتفسیر کی آواز کو بیرونی مخارج الصوت سے دوردورپہونچانے کا انتظام کیا جاتا جو شرعا درست نہیں کیونکہ اسمیں ایک تو بے حرمتی کا شائبہ ہے دوسرے اوروں کے اعمال میں خلل اندازی بھی ہے جسکو اسلام پسندنہیں کرتا۔اسلام نے انسانوں کو ایسے فطری احکام دیئے ہیں جوآسان بھی ہیں قابل قبول بھی،اورقابل عمل بھی۔قرآن پاک میں نبی رحمت سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ کی آواز پر اپنی آواز کو بلندکرنے کی ممانعت واردہے،(الحجرات:۲)حضرت لقمان علیہ السلام جو بڑے حکیم، داناو بینا انسان تھے انہوں نے اپنے بیٹے کو جو نصیحت کی ہے قرآن پاک میں اسکا ذکرہے ،’’اپنی رفتارکو معتدل رکھواوراپنی آواز کو پست کرو ،یقینا آوازوں میں سب سے زیادہ کریہہ ونا پسندیدہ آواز گدھے کی آواز ہے‘‘۔(لقمان :۱۹)  اسلام نے دھیمے وشیریںلب ولہجہ میں بات کرنے کو پسند کیا ہے ۔سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ بلند آواز سے گفتگوکو نا پسند فرما تے تھے اوردھیمی آواز سے گفتگو پسندخاطر تھی، ان اسلامی ہدایات کی پابندی میں اللہ سبحانہ کے بنائے ہوئے فطری ماحولیاتی نظام کی برقراری اوراسکی حفاظت میں ان پر عمل آوری صحت مند معاشرہ کی ضامن ہے۔