مریم النساء
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’مجھے ایسا عمل بتائیں، جو مجھے جنت میں داخل کردے‘‘۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم صرف ایک اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو‘‘۔
اسلام نے رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کی بڑی فضیلت بیان کی ہے اور جو کوئی اس سے اعراض اور گریز کرے تو اس کے لئے سخت وعید بیان کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کسی مسکین پر صدقہ کرنا صرف صدقہ ہے اور یہی صدقہ کسی رشتہ دار پر کیا جائے تو اس کی حیثیت دو گونہ ہو جاتی ہے، ایک صدقہ کی اور دوسری صلہ رحمی کی‘‘۔
رشتوں کو جوڑنا ایک اہم ذمہ داری ہے، جس کی مسلم معاشرہ کو آج سخت ضرورت ہے۔ فتنہ و فساد آج ایک عام بات ہے، رشتہ داری کو توڑا جا رہا ہے، دوستوں کے درمیان نااتفاقی ہے، والدین اور اولاد کے درمیان پھوٹ پڑ رہی ہے، ایک بھائی دوسرے بھائی کی صورت دیکھنا گوارا نہیں کر رہا ہے، غرض یہ کہ ہر طرف صلہ رحمی کی کمی دیکھی جا رہی ہے۔ شاید رشتوں کو توڑنے اور صلہ رحمی کو نظرانداز کرنے کے سبب امت مسلمہ پریشانیوں میں گھری ہوئی ہے اور بلندی حاصل کرنے کی بجائے پستی میں جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں قطع تعلق کرنے اور صلہ رحمی کو ترک کرنے سے اللہ کا غضب بھی نازل ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ بندوں کو قطع تعلق کی سزا اس صورت میں دیتا ہے کہ اسے جنت سے دُور کردیتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا‘‘۔ ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ ’’صلہ رحمی عرش کے ساتھ معلق ہوکر کہتی ہے کہ جو مجھے ملائے اللہ تعالیٰ اسے اپنا ساتھ ملائے اور جو مجھے قطع کرے اللہ تعالیٰ اسے قطع کرے‘‘۔
ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں، جلد بازی میں کوئی بھی رشتہ نہ توڑیں، ورنہ ہم اللہ کے غضب کے مستحق اور جنت سے دُور ہو جائیں گے۔ غور کیجئے! کہ موت کا کوئی بھروسہ نہیں کہ کب آجائے۔ اگر ہم اسی حال میں مر گئے، یعنی رشتہ توڑنے والے تھے اور صلہ رحمی نہ کرنے والے تھے، تو پھر ہمارا ٹھکانہ کہاں ہوگا؟۔