جب سدرہ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا، نہ درماندہ ہوئی چشم (مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم) اور نہ (حد ادب سے) آگے بڑھی۔ یقیناً انھوں نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ (سورۃ النجم۔ ۱۶تا۱۸)
دوسری بار دیکھنے کی جگہ کا ذکر فرمایا جا رہا ہے کہ دوسری دید سدرۃ المنتہٰی کے قریب ہوئی۔ ’’سدرۃ‘‘ عربی میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں اور ’’منتھٰی‘‘ کے معنی آخری کنارہ، آخری سرحد ہیں۔ اس کا لفظی ترجمہ یہ ہوگا کہ وہ درخت جو مادی جہاں کی آخری سرحد پر ہے، اس کے بارے میں کتاب و سنت میں جو کچھ ہے، ہم اس کو بلا تاویل تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ وہ درخت کیسا ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟
اس کی شاخوں، پتوں اور پھلوں کی نوعیت کیا ہے؟ ہمیں ان کی ماہیت معلوم نہیں اور نہ ان کی ماہیت جاننے میں ہمارا کوئی دنیوی اور اخروی مفاد ہے، ورنہ اللہ تعالی اس حقیقت کو خود بیان فرمادیتا۔ یہ ان اسرار میں سے ہے، جنھیں اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی جانتے ہیں۔
’’ماویٰ‘‘ اسم ظرف ہے، اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں انسان قرار پکڑتا ہے، آرام کرتا ہے۔ اس جنت کو ’’جنت الماویٰ‘‘ کیوں کہا گیا؟ علماء کرام نے اس کی متعدد توجیہیں کی ہیں۔ شہداء کی روحیں یہاں تشریف فرما ہیں، جبرئیل علیہ السلام اور دیگر ملائکہ کی یہ رہائش گاہ ہے، پرہیزگار اہل ایمان کی روحیں یہاں ٹھہرتی ہیں۔ واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
یعنی جن انوار و تجلیات کے ہجوم نے سدرہ کو ڈھانپ لیا، ان کو بیان کرنے کے لئے نہ کسی لغت میں کوئی لفظ موجود ہے اور نہ اس کی حقیقت کو سمجھنے کی کسی میں طاقت ہے۔ یہ جس طرح ذکر و بیان سے ماورا ہے، اسی طرح فہم و ادراک کی رسائی سے بھی بالاتر ہے۔