صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس

محمد یعقوب علی خاں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جس جاں نثار میں جو خوبی محسوس کی، اسے اس وصف میں کامل بنادیا۔ آپﷺ نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ میں صدیق بننے کی صلاحیت کو واضح طورپر محسوس فرمایا تو اس وصف میں انھیں ممتاز و کامل بنادیا۔ صدیق ہونا ایک ایسا وصف ہے، جو بہت سی خوبیوں کا جامع ہے، جب کہ اس وصف خاص کے سب سے زیادہ مستحق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات گرامی تھی، جس کی وجہ سے وہ اس وصف سرفراز فرمائے گئے۔ خدائے عزوجل ارشاد فرماتا ہے ’’اور جنھوں نے ان کی تصدیق کی، وہی لوگ متقی ہیں‘‘۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا استدلال علماء کرام کی ایک جماعت نے اس آیت کریمہ سے پیش کیا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’اے ایمان والو! تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اللہ تعالی ایسے لوگوں کو لائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے ہیں اور اللہ ان کا پیارا بنے۔ وہ لوگ مسلمانوں پر نرم ہوں گے اور کافروں پر سخت۔ اللہ کی راہ میں وہ لوگ جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے‘‘۔
(پارہ۶، رکوع۱۲)

حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں کون سب سے افضل ہیں؟۔ آپ نے فرمایا ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سب سے افضل ہیں‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’پھر ان کے بعد؟‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سب سے افضل ہیں‘‘۔ حضرت محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں کہ ’’میں ڈرا کہ اب اس کے بعد آپ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا نام لیں گے، تو میں نے عرض کیا اس کے بعد آپ سب سے افضل ہیں‘‘۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ’’میں تو مسلمانوں میں سے ایک آدمی ہوں‘‘ یعنی ازراہ انکسار فرمایا کہ ’’میں ایک معمولی مسلمان ہوں‘‘۔ (مشکوۃ شریف۔۵۵۵)

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری حیات میں ہم لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے، یعنی وہی سب سے افضل و بہتر قرار دیئے جاتے تھے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اور ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو۔ پھر حضرت عثمان کے بعد ہم صحابہ کرام کو ان کے حال پر چھوڑدیتے تھے اور ان کے درمیان کسی کو فضیلت نہیں دیتے تھے۔ (مشکوۃ۔۵۵۵)
سرکار اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا ’’غار ثور میں تم میرے ساتھ رہے اور حوض کوثر پر بھی تم میرے ساتھ رہو گے‘‘۔

ترمذی شریف میں ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ ’’میرے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالی نے تمھیں جہنم کی آگ سے آزاد کردیا ہے‘‘۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اسی روز سے میرے والد محترم کا نام ’’عتیق‘‘ پڑ گیا۔ (مشکوۃ۔۵۵۶)
ابوداؤد شریف کی حدیث ہے کہ رسول کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’اے ابوبکر سن لو! میری امت میں سب سے پہلے تم جنت میں داخل ہوگے‘‘۔ (مشکوۃ۔۵۵۶)

ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ ایک چاندنی رات میں جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری گود میں تھا، میں نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! کیا کسی شخص کی نیکیاں اتنی ہیں، جتنا کہ آسمان پر ستارے ہیں؟‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہاں، عمر کی نیکیاں اتنی ہی ہیں‘‘۔ حضرت سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ ’’پھر میں نے پوچھا ’’اور (میرے والد) حضرت ابوبکر کی نیکیوں کا کیا حال ہے؟‘‘۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عمر کی ساری نیکیاں ابوبکر کی ایک نیکی کے برابر ہیں‘‘۔ (مشکوۃ شریف۔۵۶۰)
خلیفہ اول کا نام عبد اللہ، ابوبکر کنیت اور صدیق و عتیق آپ کا لقب ہے۔ آپ کے والد کا نام عثمان اور کنیت ابوقحافہ ہے۔ آپ کی والدہ محترمہ کا نام سلمی اور کنیت ام الخیر ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شجرۂ نسب سے مل جاتا ہے۔ آپ واقعہ فیل کے تقریباً ڈھائی برس بعد مکہ شریف میں پیدا ہوئے۔

حضرت عبد الرحمن بن ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک میرے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اصحاب صفہ میں سے تین آدمیوں کو اپنے گھر لائے اور ان کو کھانا کھلانے کا حکم فرماکر خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلے گئے، یہاں تک کہ آپ نے رات کا کھانا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں کھا لیا اور بہت زیادہ رات گزر جانے کے بعد اپنے مکان پر تشریف لائے۔ آپ کی اہلیہ نے دریافت کیا کہ مہمانوں کے پاس آنے سے آپ کو کس چیز نے روک رکھا تھا؟۔ آپ نے فرمایا ’’کیا تم نے ابھی تک مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا؟۔ انھوں نے عرض کیا ’’میں نے کھانا پیش کیا تھا، مگر مہمانوں نے آپ کے بغیر کھانا کھانے سے انکار کردیا‘‘۔ یہ سن کر آپ اپنے صاحبزادے حضرت عبد الرحمن پر سخت ناراض ہوئے اور ان سے کہا کہ ’’تم نے مجھے اس بات کی اطلاع کیوں نہیں دی؟‘‘۔ پھر کھانا منگوایا اور مہمانوں کے ساتھ کھانے کے لئے بیٹھ گئے۔ راوی کا بیان ہے کہ ’’خدا کی قسم! ہم جو بھی لقمہ اٹھاتے، اس کے نیچے کھانا اس سے زیادہ ہو جاتا، یہاں تک کہ ہم سب شکم سیر ہو گئے اور جتنا کھانا پہلے تھا، اس سے بھی زیادہ بچ رہا‘‘۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے متعجب ہوکر اپنی اہلیہ سے فرمایا ’’یہ کیا معاملہ ہے کہ برتن سے تین گنا زیادہ کھانا ہے؟‘‘۔ پھر وہ کھانا اٹھاکر آپ؄ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ کھانا صبح تک بارگاہ رسالت میں رکھا رہا۔ مسلمانوں اور کافروں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا، جس کی میعاد ختم ہو چکی تھی، لہذا اس روز صبح کے وقت ایک لشکر تیار کیا گیا، جس میں بہت کافی تعداد میں لوگ شامل ہوئے تھے، پوری فوج نے اس کھانے کو شکم سیر ہوکر کھایا، مگر برتن میں کھانا کم نہیں ہوا۔ (بخاری، ج۱،صفحہ۵۰۶)
قرآن پاک میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو سب سے بڑا پرہیزگار فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’بے شک اللہ کے یہاں تم میں سب سے زیادہ مکرم اور عزت والا وہ ہے، جو سب سے بڑا پرہیزگار ہے‘‘۔