عوام کے جمہوری حقوق پامال ہونے کا اندیشہ بے بنیاد
حیدرآباد /28 فروری ( سیاست نیوز ) ریاست آندھراپردیش 41 سال کے طویل وقفہ کے بعد صدر راج کے سبب عوام میں متعدد غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ۔ عوام میں صدر راج سے متعلق یہ رائے ہے کہ صدر راج کی صدارت میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال فوج کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور تمام امور کی نگرانی افواج ہی کرتی ہے لیکن حقیقت یہ نہیں ہے ۔ 41 سال قبل جن حالات میں صدر راج نافذ کیا گیا تھا وہ حالات بلکلیہ طور پر علحدہ تھے اور 1973 سے قبل ’’ جئے آندھرا ‘‘ تحریک کے پرتشدد ہوجانے کے باعث وہ صورتحال پیدا ہوئی تھی ۔ اس وقت پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت کی جانب سے نظم و ضبط کی برقراری میں ناکامی کے باعث صدر راج نافذ کیا گیا تھا ۔ فوری طور پر گورنر آندھراپردیش کندوبھائی کاسن جی دیسائی نے ریاست کی نگرانی سنبھال لی تھی ۔ صدر جمہوریہ ہند کی جانب سے صدر راج کے اعلامیہ کی اجرائی کے ساتھ ہی اس وقت کے گورنر نے مسٹر سیرین کو اپنا مشیر مقرر کیا تھا ۔ جنہوں نے بعد کے دور میں خوب شہرت حاصل کی بلکہ 11 جنوری 1973 سے 10 ڈسمبر 1973 تک رہے ۔ اس صدر راج میں مسٹر سیرین کی بہترین انتظامی صلاحیتوں کے خوب چرچے رہے اور وہ عہدیداروں سے راست رابطہ میں رہا کرتے تھے ۔ اسی لئے آج بھی 1973 کے صدر راج کے متعلق بزرگ شہری سیرین کو یاد رکھے ہوئے ہیں ۔ جبکہ اس وقت گورنر آندھراپردیش کے عہدے پر مسٹر کندو بھائی کاسن جی دیسائی برسرکار تھے ۔ ایک اعلی عہدیدار نے بتایا کہ اس وقت امن و ضبط بھی ایک بڑا مسئلہ تھا ۔
اس لئے عوام کے ذہنوں میں اس دور کے متعلق کچھ دہشت ہے لیکن اب جو صدر راج کے نفاذ کی سفارش ہوئی ہے اس میں ایسے کوئی حالات رونما ہونے کی گنجائش نہیں ہے ۔ صدر راج کے دوران دستور کی بالادستی کو یقینی بنانے کی حتی الامکان کوشش کی جاتی ہے جو کہ نظم و ضبط کی برقراری میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔ ذرائع کے بموجب راج بھون صدر راج کی صورت میں حالات پر نگاہ رکھنے اور سرکاری امور کی انجام دہی کیلئے مشیر نامزد کرتا ہے اور ان مشیروں میں محکمہ جات تقسیم کے ذریعہ سرکاری امور انجام دئے جاتے ہیں ۔ ریاست آندھراپردیش کی نئی نسل کیلئے صدر راج کا طرز حکمرانی بالکل نیا ہے ۔ اسی لئے اس کے متعلق ان میں خدشات پائے جاتے ہیں چونکہ اس نسل نے اپنے بزرگوں سے اس کے متعلق صرف سن رکھا ہے ۔ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ صدر راج کے نفاذ کا راست عوام پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا بلکہ سرکاری امور کی انجام دہی میں پیش آنے والی سیاسی مداخلتیں ختم ہوجاتی ہیں ۔ تشکیل آندھراپردیش سے قبل ریاست آندھرا میں کچھ وقت کیلئے صدر راج نافذ کیا گیا تھا جس کی وجہ سے آندھرا کے چیف مسنٹر ٹی پرکاشم کی حکومت کا اقلیت میں آجانا تھی ۔
ریاست آندھرا میں 15 نومبر 1954 سے 29 مارچ 1955 صدر راج رہا اور تشکیل آندھراپردیش کے بعد لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پر حکومت کی جانب سے قابو پانے میں ناکامی کے سبب 11 جنوری 1973 کو صدر راج نافذ کیا گیا تھا جوکہ 10 ڈسمبر 1973 تک جاری ہا اور اب جبکہ ریاست آندھراپردیش کی تقسیم کو قطعیت دے دئے جانے کے فوری بعد 21 فروری کو چیف منسٹر مسٹر این کرن کمار ریڈی نے بعض ریاستی وزراء کے ہمراہ گورنر آندھراپردیش مسٹر ای ایس ایل نرسمہن کو اپنا استعفی پیش کردیا تھا ۔ اس کی منظوری کے بعد پیدا شدہ سیاسی بحران کے حل کیلئے تقریباً ایک ہفتہ کوششوں کے باتھ 28 فروری کو صبح مرکزی کابینہ نے آندھراپردیش میں صدر راج کے نفاذ کی صدر جمہوریہ سے سفارش کرتے ہوئے حالات کو معمول پر لانے کی کوششوں کا آغاز کیا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ اب تک ملک بھر کی مختلف ریاستوں میں 122 مرتبہ صدر راج نافذ کیا جاچکا ہے جوکہ دستور کی دفعہ 356 کے استعمال کے ذریعہ کیا جاتا ہے ۔