صدر جمہوریہ کی سچ بیانی

ہر چہرے پر چہرا ہو تو کیسے ہم یہ پہچانیں
کون ہے اپنا کون پرایا ،میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
صدر جمہوریہ کی سچ بیانی
سیکولر ہندوستان کے روشن چراغ جلیں گے تو قوم کو ترقی و خوشحالی کی روشنی حاصل ہوگی۔ صدر جمہوریہ پرنب مکرجی کی سیاسی زندگی اور یادداشت پر مشتمل دوسری کتاب میں سیکولر ہندوستان میں سرزد ہونے والی سب سے بھیانک غلطیوں کا پوری دیانتداری اور سچائی کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ ایودھیا میں رام جنم بھومی کے مقام کو کھول دینے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے فیصلہ کو غلطی قرار دینے کے علاوہ صدر جمہوریہ نے سابق وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کی جانب سے بابری مسجد کی شہادت کو روکنے سے قاصر ہونے کو بہت بڑی ناکامی سے تعبیر کیا ہے۔ یہ واقعات سیکولر ہندوستانیوں کے لئے تکلیف دہ تھے جن کی وجہ سے ان کے سر شرم سے جھک گئے۔ صدر جمہوریہ نے اپنی کتاب میں بابری مسجد کی شہادت کے باعث مسلمانوں کے جذبات کو پہونچنے والی ٹھیس کا بھی درد و اندوہ سے ذکر کیا کہ اس واقعہ سے سارے دنیا میں ہندوستان کی رسوائی ہوئی تھی۔ شاہ بانو کیس میں بھی سابق وزیراعظم نے غیرضروری مداخلت کی تھی۔ یکم  فبروری 1986 کو رام جنم بھومی مقام کی کشادگی بلا شبہ ایک اور غلط فیصلہ تھا۔ عوام کا احساس ہے کہ اگر حکمراں طبقہ چاہتا تو ایسی حرکتوں سے گریز کرسکتا تھا۔ صدر جمہوریہ نے سابق کانگریس حکومت اور اس کے وزرائے اعظم کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ واضح کردیا کہ اگر یہ حکمراں چاہتے تو مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کرنے والی حرکتوں اور کارروائیوں کو ٹال سکتے تھے، مگر سیاسی مقصد براری کے ساتھ اقتدار کی لالچ سرچڑھ جاتی ہے تو قوم پرستی کا جذبہ پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے گئے رویہ کی وجہ سے ہی آج سیکولر ہندوستان پر فرقہ پرستوں کا غلبہ ہے۔ کانگریس کی صفوں میں موجود بعض قائدین کی غلطیوں نے اس پارٹی کو جو سیاسی نقصان پہونچایا ہے اس کا خمیازہ وہ بھگت رہی ہے لیکن سیکولر ہندوستان کی شبیہ کو ساری دنیا میں مسخ کرنے والی غلطیوں کو ہندوستانی سیکولر عوام ہرگز معاف نہیں کرسکتے۔ بابری مسجد کی شہادت بالکلیہ فرقہ پرستوں کی پُرفریب حرکت تھی، اس مسجد کو نشانہ بنانے کی احمقانہ اور جنونی تخریب کاری کے مرتکب لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہ کرنا بھی ایک سیاسی مفادات کی مقصد براری تھی۔ سابق وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ نے بابری مسجد کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا اور جنونی فرقہ پرستوں کو ایودھیا سے دور رکھنے کا تیقن دیا تھا، لیکن جس لیڈر کی نیت کچھ اور ہوتی ہے اسے اپنے ملک اور اس ملک کے باشندوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو گہرا زخم پہونچنے کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہوتی۔ جس ملک میں رواداری پائی جاتی تھی آج یہاں عدم رواداری کے واقعات رونما ہورہے ہیں تو اس کے تار ضرور صدر جمہوریہ پرنب مکرجی کی کتاب میں ظاہر کردہ قائدین کی غلطیوں سے جاملتے ہیں۔ ہندوستان کی سیکولر آبادی کے مختلف شعبوں میں پھوٹ ڈالنے اور ان کے اندر صف بندی کرانے والی پارٹی کو آج اپنی سیاسی ساکھ کی فکر ہے تو سب سے پہلے اسے خود احتسابی سے گذرنے کی ضرورت ہوگی۔ جب سماج میں فرقہ پرستی کی گہری تاریکی چھا جاتی ہے تو ایسے میں صدر جمہوریہ پرنب مکرجی کی جیسی بزرگ جلیل القدر شخصیتوں کی سچ بیانی روشنی کی ننھی سی کرن بن کر بڑا حوصلہ دیتی ہے تو اس سے مسلمانوں اور سیکولر ہندوستانیوں کو غوروفکر کا موقع ملتا ہے۔ اس کتاب کی تحریر سے ہندوستانی عوام کو کسی قدر یہ احساس ہوا ہوگا کہ ماضی کے حکمرانوں کی غلطیوں کی سزا عدم رواداری کی فضاء کے طور پر مل رہی ہو، ہندوستانی مسلمان بلا شبہ صدر جمہوریہ کے اس جذبہ کی قدر کرتے ہوئے مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ ملک کے جلیل القدر عہدہ پر فائز پُرعزم، فرض شناس اور دوراندیش شخصیت نے ہندوستانی عوام کو جو بڑے خلفشار سے دوچار ہیں ماضی کی غلطیوں کی نشاندہی کے ساتھ موجودہ اور مستقبل کی سیاست کو انتباہ دیا ہے اس طرح انہوں نے ہندوستانی عوام کو مزید خلفشار سے محفوظ کرلیا ہے۔دراصل ملک میں فروغ پانے والے بعض عناصر دانستہ طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا جو گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں اس کو روکنے کے لئے سیکولر ہندوستانیوں کو ساتھ لینے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ ہمارے درمیان ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جو صدر جمہوریہ پرنب مکرجی کی فکر کی حمایت کرتا ہے۔ ایسے بصیرت، شجاعت پسند اور سیکولر مزاج کے حامل ہندوستانیوں کو موجودہ حالات کی حساسیت کو محسوس کرتے ہوئے حوصلہ شکن طاقتوں کے خلاف متحد ہونا چاہیئے۔