نہیں شایانِ شاں اس مرتبے کے
کوئی بھی رنگ جھلکے تبصرے سے
صدر جمہوریہ کی تقریر میں سیاسی عنصر
صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے یوم جمہوریہ کے موقع پر قوم سے خطاب کیا اور انہوں نے اپنے خطاب میں کئی اہم موضوعات کا احاطہ کیا ۔ صدر جمہوریہ نے جہاں کرپشن کے عروج پر تنقید کی وہیں انہوں نے جمہوریت کی بقا اور ترقی کے تعلق سے بھی اظہار خیال کیا ۔ صدر جمہوریہ نے کہا کہ ہندوستان میں جمہوریت کوئی تحفہ نہیں بلکہ یہ ایک بنیادی حق ہے جو اس ملک کو دوسروں سے منفرد کرتا ہے ۔ صدر جمہوریہ نے کہا کہ ہندوستان میں جمہوریت پوری آب و تاب کے ساتھ روشن ہے اور اس کا سب سے اہم اور مثبت پہلو یہ ہے کہ جمہوریت خود اپنے آپ کی اصلاح کا موقع فراہم کرتی ہے ۔ ہندوستان میں ہر پانچ سال میں حکومتوں کا انتخاب عمل میں آتا ہے اور انہوں نے حکومتوں کو خبردار کیا کہ وہ اس خیال سے حکومت بنائیں کہ اگر وہ پانچ سال میں عوام کے مسائل کی یکسوئی نہ کرپائیں اور عوام کی توقعات کو پورا نہ کرپائیں ‘ اگر عوام ان کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہونے پائیں تو پھر انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے ۔ صدر جمہوریہ نے جہاں ملک کی دفعی طاقت کا حوالہ دیا اور ملک کی مسلح افواج کا تذکرہ کیا وہیں انہوں نے سیاسی پہلووں پر بھی اظہار خیال کیا ہے ۔ انہوں نے حکومتوں اور عوام کے مابین جو رابطہ ہونا چاہئے اس پر اظہار خیال کیا اور کہا کہ آج کرپشن کا عروج ہے جس کی وجہ سے عوام میں برہمی پائی جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت اقتدار کی ہوس رکھنے والوں کیلئے نہیں ہے بلکہ عوام کی خدمت کیلئے ہے ۔ صدر جمہوریہ نے تاہم کہا کہ حرص و ہوس رکھنے والے افراد اقتدار تک پہونچ رہے ہیں جس کی وجہ سے کرپشن کو عروج حاصل ہو رہا ہے ۔ صدر جمہوریہ نے اپنی تقریر میں عوامی مقبولیت کی خاطر کئے جانے والے اقدامات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ نراج کی کیفیت پیدا کرنا حکمرانی کا متبادل نہیں ہوسکتا ۔ صدر جمہوریہ کا یہ ریمارک بالواسطہ طور پر عام آدمی پارٹی کے حوالے سے تھے جسے سیاسی حلقوں میں نراج کی کیفیت پیدا کرنے والی جماعت قرار دیا جا رہا ہے ۔ خاص طور پر عام آدمی پارٹی کی مقبولیت اور دہلی میں اس کی حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کو دیکھتے ہوئے کچھ سیاسی جماعتوں میں خوف کی لہر پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے اس پارٹی کو نشانہ بنانے کا عمل تیز تر ہوگیا ہے ۔ صدر جمہوریہ نے بھی اب بالواسطہ طور پر اس پر تنقید کی ہے۔ صدر جمہوریہ کی تقریر یوم جمہوریہ کے موقع پر روایتی انداز کی ہوا کرتی ہے جس میں حکومت کی ترجیحات اور حکومت کی کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ملک کو درپیش مسائل کا بھی احاطہ کیا جاتا تھا ۔ اس بار بھی حالانکہ صدر جمہوریہ کی تقریر میں یہ سب امور شامل ہیں لیکن شائد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بالواسطہ طور پر ہی صحیح سیاسی عنصر بھی اس تقریر میں دکھائی دیا ہے ۔
دہلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت کے اقتدار سنبھالنے ہی اس کی مقبولیت میں جو اضافہ ہوا تھا اور ملک گیر سطح پر عوام جس طرح سے اس جانب متوجہ ہوئے تھے وہ عوامی مقبولیت دیگر سیاسی جماعتوں کیلئے چونکادینے والی تھی ۔ انہیں اپنے سیاسی مستقبل کی فکر لاحق ہوئی اور یہ احساس بھی کہیں نہ کہیں اجاگر ہوگیا تھا کہ شائد وہ انتخابات میں اس پارٹی کی وجہ سے اپنے نشانوں کی تکمیل میں کامیاب نہیں ہونے پائیں گے ۔ یہی وجہ رہی کہ کئی جماعتوں کے سینئر قائدین کی جانب سے عام آدمی پارٹی کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ عام آدمی پارٹی نے دہلی میں جس طرح سے مفت آبی سربراہی کا اعلان کیا اور برقی شرحوں میں پچاس فیصد کٹوتی کردی اس سے بھی بہت سے گوشے پریشان نظر آتے ہیں۔ صدر جمہوریہ کی تقریر میں بھی اس کا ہلکا سا اشارہ ملتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کوئی خیراتی ادارہ نہیں ہے ۔ عوامی مقبولیت میں نراج کی کیفیت حکمرانی کا متبادل نہیں ہوسکتی ۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ عوام سے جھوٹے وعدے نہیں کئے جانے چاہئیں۔ عام آدمی پارٹی پر مختلف جماعتیں عوام سے جھوٹے وعدے کرنے کا الزام عائد کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام جھوٹے وعدے کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے اور انتخابات میں انہیں اپنے ووٹ کے ذریعہ سبق سکھاتے ہیں۔ اس پہلو سے بھی صدر جمہوریہ کی تقریر میں یہ ریمارک بھی سیاسی اہمیت ہی کا نظر آتا ہے اور شائد یہ پہلا موقع ہے کہ اس طرح کے ریمارکس تقریر میں شامل ہیں۔ جس طرح سے صدر جمہوریہ نے کہا کہ حکومت کوئی خیراتی ادارہ نہیں ہے اور عوامی مقبولیت ‘ حکمرانی کا متبادل نہیں ہوسکتی ۔ یہ ایک حقیقت ہے لیکن یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے اور ہندوستان کی جمہوریت کا حصہ ہے کہ حکومت ہوتی ہی عوام کیلئے ہے ۔ وہ ہر کام عوام کی فلاح و بہبود اور ملک و قوم کی سلامتی و ترقی کو ذہن میں رکھتے ہوئے کرتی ہے ۔
آج کروڑ ہا روپئے رشوت خور اور بدعنوان عہدیداروں اور سیاست دانوں کے خزانہ بھرنے میں کام آ رہے ہیں اور اگر اس کا کچھ حصہ عوام کو مفت پانی یا نصف قیمتوں پر برقی فراہم کرنے کیلئے خرچ کیا جاتا ہے تو اس پر اس طرح کے ریمارکس کرنا شائد مناسب نہ ہو ۔ یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ دہلی میں جو حکومت بنی ہے وہ دہلی کے رائے دہندوں کی پسند سے بنی ہے اور جمہوریت میں رائے دہندے ہی سب کچھ ہوتے ہیں ۔ حکومتوں کے طرز عمل اور ان کے فیصلوں پر اعتراض و اتفاق سیاسی جماعتوں کا کام ہے اور وہ چل بھی رہا ہے، تاہم صدر جمہوریہ کی تقریر میں اس طرح کے امور کے سیاسی انداز میں تذکرہ کی یہ مثال شائد پہلی مرتبہ ہے اور یہ مناسب معلوم نہیں ہوتی۔