صدر جمہوریہ کا خطاب

نہ پھل ہیں شاخوں پہ اور نہ ہوا میں گل کی مہک
وہ کہہ رہے ہیں چمن میں بہار آئی ہے
صدر جمہوریہ کا خطاب
ملک میں بیک وقت تمام انتخابات کرانے کی حمایت کرتے ہوئے صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے قوم سے کئے گئے اپنے یوم جمہوریہ خطاب میں نریندر مودی حکومت کی نوٹ بندی پالیسی کی بھی حمایت کی۔ اس سے قبل صدر جمہوریہ نے ہی نوٹ بندی کے مسئلہ پر حکومت کے اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ گذشتہ دو مہینوں کے دوران ملک بھر میں عوام کو درپیش مسائل کو نظرانداز کردینا جلیل القدر عہدہ کیلئے کوئی مجبوری نہیں ہونا چاہیئے۔ جہاں تک ملک بھر میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کو ایک ساتھ منعقد کرنے کا سوال ہے، اس پر الیکشن کمیشن نے بھی اپنی تجویز اور مکمل رپورٹ پیش کی ہے۔ یکساں انتخابات کو یقینی بنانے کیلئے قانون میں ترمیم کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ پارلیمانی سطح پر ہی یکساں انتخابات کو یقینی بنانے کا ترمیمی قانون پیش کیا جاسکتا ہے۔ صدر جمہوریہ نے اپنی تقریر میں تمام اُمور کا احاطہ کیا ہے۔ مرکزی حکومت کیلئے کیا کام انجام دیئے جانے چاہیئے اور کیا نہیں اس پر توجہ دیئے بغیر اگر دستوری عہدہ کی حامل شخصیت عمومی طور پر کسی بھی مخالف عوام پالیسی کی حمایت کرتی ہے تو اس پر سوال اٹھیں گے۔ ہندوستان کے اصل نظریہ کو تہس نہس کردینے والے حالیہ واقعات کے درمیان یوم جمہوریہ کے موقع پر عوامی مسائل کو نظر انداز کرنا کسی طرح منصفانہ نہیں کہا جاسکتا۔ صدر جمہوریہ پرنب مکرجی کی اس سے پہلے کی گئی تقاریر اور اب کی تقریر میں کافی فرق دیکھا گیا ہے کیونکہ انہوں نے اس سے پہلے ملک کے اندر بڑھتی عدم رواداری کی مذمت کی تھی۔ مسلح افواج کی مکمل کمان رکھنے والے صدر جمہوریہ نے بہادر سپاہیوں کو خراج بھی پیش کیا ہے اور فوج کے اعلیٰ عہدیداروں تک ہی یہ خراج محدود ہوتا ہے تو فوج کے ایک عام سپاہی پر پڑنے والے بوجھ اور اسے درپیش مسائل کو دور نہ کرنا بھی ایک افسوسناک سچائی ہے جیسا کہ حال ہی میں ایک جوان نے فوج کو سربراہ کئے جانے والے غیر معیاری کھانے کی شکایت کی تھی۔ اس شکایت کا اگرچیکہ نوٹ لیا گیا ہے لیکن سپاہیوں کے اندر پائے جانے والے احساس ابتری کو دور کرنا بیحد ضروری ہے۔ صدر جمہوریہ نے اپنے خطاب میں حکومت کی کوتاہیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ فوج کو درپیش مسائل کی جانب توجہ دینے کی کوشش کی۔ صدر جمہوریہ نے یہ تسلیم کیا کہ احتجاج کے حق کو تمام نظام تسلیم کرتے ہیں۔ بے شک یہ نظام بے عیب نہیں ہیں، کوتاہیوں کی شناخت اور ان کی اصلاح ضروری ہے۔ قومی اعتماد کی عمارت کو مستحکم کرنا چاہیئے۔ دستور ہند میں تمام شہریوں کو جو حقوق دیئے گئے ہیں اس پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ آزادی کا مطلب بھی اب ایک مخصوص ذہن کے افراد کے اِرد گرد منڈلاتا رہا ہے۔ آزادی کی روح کو مشروط نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ آزادی ہر شہری کے حق میں ہونا ضروری ہے۔ ہندوستانی جمہوریت میں انجام دیئے گئے اب تک کے کارنامے بلاشبہ قابل ستائش ہیں، عوام کی سالانہ آمدنی میں اضافہ کی کوششوں کی فکر رکھنے والی حکومتوں نے غربت کی شرح کو کم کرنے کی دیانتدارانہ کوشش نہیں کی۔نریندر مودی کی زیر قیادت حکومت نے ملک کے رشوت ستانی کے خاتمہ اور کالادھن کو ختم کرنے کیلئے نوٹ بندی کا فیصلہ کیا تھا اس سے معیشت میں عارضی طور پر انحطاط پیدا ہوا ہے۔ صدر جمہوریہ کا دعویٰ ہے کہ نوٹ بندی سے معاشی نظام کو شفاف بنانے میں مدد ملی ہے اور یہ کالا دھن اور رشوت کے خلاف جنگ تھی۔ اس طرح کوششوں سے ہندوستان کو دوسرے ممالک پر سبقت لیجانے میں کامیابی مل سکتی ہے بشرط یہ کہ ہم موثر تبدیلیاں انجام دے سکیں۔ نظریات کی یک رنگی سے زیادہ صحتمند جمہوریت کیلئے رواداری، صبر و تحمل اور تمام شہریوں کے اقدار کا احترام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ہندوستانی نوجوانوں کے بارے میں صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے اچھا پیام دیا ہے۔ جب تک نوجوانوں میں پابندی ڈسپلن کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا اور شہریوں کے حقوق کو پامال کرنے والے واقعات ہوتے رہیں گے۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد سے اب تک ملک میں تین نسلیں عالم وجود میں آچکی ہیں۔ موجودہ نسل پر ماضی کی تلخیوں کا بوجھ لادنا نہیں چاہیئے۔ ہندوستانی جمہوریت نے تمام شہریوں کو یکساں حقوق دیئے ہیں اور ہر شہری کا اپنا حق ہوتا ہے لیکن جب ایک بااختیار شہری دوسرے شہری پر کسی پر ظلم و زیادتی کے ذریعہ اپنے نظریہ کو مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ نظام ابتری کا باعث بنتا ہے۔ صدر جمہوریہ نے دہشت گردی کے خلاف کئے جانے والے اقدامات کا بھی ذکر کیا۔ اس لعنت کو ختم کرنے کیلئے سخت جدوجہد کی ضرورت ہے۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر اس سال مہمان خصوصی کے طور پر ابوظہبی کے ولیعہد شہزادہ شیخ محمد بن زاید النیہان کا خیرمقدم کیا گیا اور یو اے ای کے ساتھ دفاعی شراکت داری اور دیگر 13 معاہدوں پر دستخط، مشرق وسطیٰ کے کسی ایک پہلے ملک کے ساتھ ہندوستان کے مراسم میں استحکام آیا ہے جو ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔