ایران کے انتخابات میں نتائج کا اونٹ اصلاح پسندوں کی جانب کروٹ لے گا تو اس کامیابی کو مغرب کے ساتھ ایرانی سربراہوں کی حالیہ قربت اور نیوکلیر معاہدہ کے بعد اہم تبدیلی سمجھا جارہا ہے۔ مخالفین نے اس کامیابی کو مغربی ممالک کی ایماء پر ڈالے گئے ووٹوں کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ حقیقت کچھ بھی ہو ، ایران کے عوام نے اصلاح پسندوں کے ہاتھ مضبوط کرتے ہوئے نئے زمانے کی جانب پیشقدمی کی ہے تو صدر حسن روحانی کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ ایران کی سیاسی صورتحال کا تجزیہ کرنے والوں نے اس کو نہایت پیچیدہ سیاست قرار دیا ہے۔ سخت گیر سیاستدانوں اور اصلاح پسندوں نے ایران کی سیاست کو نوجوان نسل کی سوچ کے درمیان انتخابی محاذ آرائی سے گذار کر پارلیمنٹ تک رسائی کی کوشش کی تھی مگر اس میں ایران کے نوجوان ووٹر نے اصلاح پسندوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کو ترجیح دی۔ ان کی نظر ایران کی داخلی پیچیدہ سیاست سے زیادہ مستقبل پر ہے۔ معاشی ترقی اور عظیم تر آزادی کے جذبہ نے نوجوانوں کو ووٹ دینے کی ترغیب دی ہے۔ بلاشبہ صدر حسن روحانی کو ایران کی سیاست پر دوبارہ گرفت حاصل ہورہی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایران کے رول پر کئی سوال اُٹھانے والوں کے لئے یہ انتخابات تشویشناک ہوں گے۔ روس کے ساتھ ایران کی دوستی ہو یا اسرائیل کے خلاف اس کی جارحانہ پالیسی مغربی دنیا کے لئے ایران کے ساتھ تعلقات کو تازہ انتخابات نے ایک نئی سیاسی قوت فراہم کی ہے تو آنے والے دنوں میں ایران کی داخلی اور خارجہ پالیسی کے لئے مغرب کے تبصرے غور طلب ہوں گے۔
امریکہ کے ساتھ نیوکلیر معاہدے کے بعد ہونے والے ان انتخابات میں اصلاح پسندوں کی کامیابی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ 2017 ء میں حسن روحانی کو دوبارہ اقتدار حاصل ہوگا۔ انتخابات کے بعد عوام نے ان پر مزید اعتبار کیا ہے اور ایران کی سیاست پر ان کا کافی اثر و رسوخ ہونے کا ثبوت بھی مل گیا ہے۔ انتخابات اور نتائج کے آنے کے بعد ایران کی معاشی صورتحال پر توجہ دینا صدر کی اولین کوشش ہونی چاہئے۔ کیوں کہ ان انتخابات کے دوران چلائی گئی انتخابی مہم میں ایران کی معیشت کو ہی اہم موضوع بنایا گیا تھا۔ حسن روحانی کے نظریہ سے متفق ہونے والوں کو ایران کی سیاسی اور معاشی زندگی کو بہتر بنانے کی فکر بھی ہونی چاہئے۔ اصلاح پسند اور اعتدال پسند امیدواروں کو ایرانی عوام نے اچھے ووٹ دیئے ہیں۔ زیادہ تر ووٹ سابق صدر علی اکبر رفسنجانی اور اصلاح پسند موجودہ صدر حسن روحانی کی حمایت والے امیدواروں کو حاصل ہوئے ہیں۔ ایران پر سے عالمی معاشی تحدیدات برخاست کئے جانے کے بعد پہلی مرتبہ ہونے والے ان انتخابات کے نتائج ایران کے آنے والے پارلیمانی انتخابات کا رُخ اور سمت کا تعین کریں گے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی ایران کے ان نتائج کا مثبت اثر پڑسکتا ہے۔
ایران کو برسوں مابقی عالمی برادری سے یکا و تنہا رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے لیکن اسے حسن روحانی کی قیادت کو مضبوطی فراہم کرتے ہوئے ایران کو عالمی تنہائی ختم کرنے کی کوشش مثبت ثابت ہوگی۔ جن مغربی طاقتوں کو ایران کی اقتصادی قوت اور عالمی برادری سے قربت میں دلچسپی ہے وہ ایران کے اندر کسی بھی قسم کی مداخلت کی کوشش کرسکتے ہیں اس لئے ایران کی نوجوان نسل کو ہوشیار رہنا ہوگا اور حکومت اور قیادت کے ہاتھ مضبوط کرنے ہوں گے۔ بہرحال حسن روحانی کی پالیسی کو جب ایران کے عظیم رہنما آیت اللہ خامنہ ای کی غیر معمولی تائید حاصل ہو تو ایران کو مستقبل میں کسی بڑے خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ایران کے سخت گیر بااثر علماء اب بھی ایران کے اہم شعبوں پر اپنی گرفت مضبوط رکھتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود ایران کی موجودہ حکومت اور اس کی پالیسی پر انتخابی نتائج کا اثر ہوگا اور تبدیلی کے امکانات قوی ہوں گے۔ یہ انتخابات ایران کے آئندہ کے عظیم رہنما کے انتخاب کی بھی راہ ہموار کریں گے۔ ایران کے تجزیہ کاروں نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ ان کے ملک میں باقاعدہ سیاسی پارٹیاں نہ ہونے کے باوجود عوام نے اپنے ووٹوں کے ذریعہ ایران کے مستقبل کی تصویر کو واضح کردیا ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ ایران کے منتخب نمائندے ہی اصل طاقت رکھتے ہیں مگر ان کے اختیارات ایران کے عظیم رہنما جیسے غیر منتخب حکام کے تابع ہوتے ہیں۔