کیا بات کوئی اُس بُت عیار کی سمجھے
بولے ہے جو مجھ سے تو اشارات کہیں اور
صدر اوباما کا دورۂ ملائیشیاء
صدر امریکہ بارک اوباما نے مسلم اکثریتی ملک ملائیشیاء کا دورہ کرتے ہوئے باہمی تعلقات کو مزید مستحکم و مضبوط کرنے کے عہد کے علاوہ عالم اِسلام خاص کر مسلمانوں پر مظالم کرنے والی طاقتوں کو انتباہ دیا۔ میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام اور بدھسٹوں کے رول کا بھی انھوں نے سخت نوٹ لیا ہے۔ اس کے ساتھ اگر وہ مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کی حالت ِ زار، اسرائیل کی زیادتیوں پر بھی توجہ دیتے تو ان کی مسلم دوستی پر کوئی شبہ نہیں ہوتا۔ صدر امریکہ نے اپنے دور حکومت کی پہلی میعاد میں مصر کا دورہ کرتے ہوئے قاہرہ کی جامعہ ازہر سے عالم اِسلام کو پیام دیا تھا کہ وہ مغربی دُنیا اور مسلم ملکوں میں پائی جانے والی دُوری کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکے۔ تاہم ملائیشیاء کا ان کا دورہ تاریخی نوعیت کا ہے، کیونکہ 1966ء کے بعد سے امریکہ کے وہ پہلے صدر ہیں جنھوں نے ملائیشیاء کا دورہ کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ملائیشیاء نے مسلم اکثریتی ملک کی حیثیت سے حالیہ برسوں میں ایک عصری مسلم ملک کے طور پر ترقی کی ہے۔ یہ ملک ایک ہمہ نسلی، ہمہ مذہبی معاشرہ کا زبردست مرکز کا حامل ہے۔ وزیراعظم ملائیشیاء نجیب رزاق سے اوباما کی ملاقات سے دونوں ملکوں کے تعلقات مزید قریب اور مضبوط ہوں گے۔ ملائیشیاء میں اظہارِ خیال کی آزادی اور سیاسی تعصب پسندی کو ختم کرتے ہوئے عصری محاذ پر کامیابی حاصل کرنے کے کارناموں کی زبردست ستائش کی جارہی ہے۔ دُنیا کے مختلف ممالک میں جہاں مسلم دشمنی، نسل کشی اور مذہبی تعصب پسندی کے ذریعہ انسانوں کے قتل عام کو عام کیا جارہا ہے، وہیں ملائیشیاء میں ہمہ نسلی، ہمہ مذہبی معاشرہ کو فروغ دینے کی شاندار مثال پائی جاتی ہے۔ میانمار ہو کہ دُنیا کے دیگر علاقوں میں مسلم نسل کشی کی کوششیں قابل مذمت ہیں۔ دُنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بڑھتے واقعات پر دونوں قائدین اوباما اور نجیب رزاق نے اظہارِ افسوس کیا۔ شہری آزادی کو ایک اُصول کے طور پر اپنانے کی ضرورت ہے۔ اوباما کو جہاں ایک طرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات پر افسوس ہے، وہیں اسرائیل کی جانب سے کی جارہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بھی نوٹ لینا چاہئے۔ خود مغربی طاقتوں نے اب تک انسانی حقوق کے تحفظ کے معاملہ میں دوہرے معیارات کا مظاہرہ کیا ہے۔ ملائیشیاء میں جس طرح مذہبی آزادی سے متعلق غیر مسلم شہری خود کو خوش نصیب سمجھتے ہیں۔ اس طرح دیگر اقوام کے شہریوں کو اپنے مسلم ساتھیوں کو اس خوشی کے اظہار کا موقع فراہم کرنا چاہئے۔ امریکہ نے کئی مسلم ملکوں کے ساتھ اپنی جداگانہ پالیسی بناتی ہے۔ اسی لئے آج تک وہ مسلم دُنیا میں اپنا اعتماد بحال نہیں کرسکا۔ صدر بارک اوباما نے اگرچہ کہ ملائیشیاء کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات اور شراکت داری کا نیا دور شروع کیا ہے، مگر اس کو کس حد تک کامیاب نایا جائے گا، یہ وقت ہی بتائے گا۔ امریکہ اور ملائیشیاء کے تعلقات میں سابق وزیراعظم مہاتر محمد کی حکومت کے دوران کئی برس کی کشیدگی کے بعد بہتری آرہی ہے۔ مہاتر محمد نے اپنے ملک اور عوام کو مغربی طاقتوں کی چالاکیوں سے بچاکر رکھنے کی کوشش کی تھی۔ مہاتر محمد کو مغرب کے دوہرے معیار پر اعتراض تھا۔ صدر اوباما نے ماضی سے ہٹ کر جدید دور میں ملائیشیاء کی عصری ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق اور وقار و امن کے ساتھ رہنے کی ترغیب دی ہے۔ جہاں تک بین ممالک اوقیانوسی تجارتی معاہدہ کا سوال ہے، یہ اوباما کے لئے مشکل ہوگا۔ کیوں کہ اس معاہدہ کا مقصد اس خطے میں چین کے بڑھتے تجارتی اثرات کو کم کرنے یا اس کا مقابلہ کرنے سے متعلق ہے۔ اس خطے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی خاطر اوباما کا یہ دورہ کس حد تک کامیاب ہوگا؟ یہ آگے چل کر معلوم ہوگا۔ اس تاریخی دورۂ ملائیشیاء کے جذبہ کو مضبوط و مستحکم بنانا امریکہ کا کام ہے۔ ملائیشیاء کے حالیہ لاپتہ طیارہ کی تلاش میں امریکہ کے بشمول دیگر بڑے ملکوں کی کوششوں کا بھی نوٹ لیا جائے تو عالمی طاقتوں کی تمام تر خوبیوں اور عصری صلاحیتوں کے باوجود کامیابی نہیں مل سکتی، تاہم ملائیشیاء اور اس کے عوام کے صبر و تحمل کی زبردست ستائش کی جانی چاہئے۔ ملائیشیاء کے وزیراعظم نجیب رزاق کی اس امریکہ نواز پالیسی کی اندرون ملک مخالفت بھی ہورہی ہے۔ جس ملک کو مہاتر محمد نے مخالف مغرب پالیسی سے ترقی دینے میں کامیابی حاصل کی، اب اسی ملک کے مسلم شہری امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدوں کے مخالف ہیں۔ اس طرح کی تجارتی دوستی کا علاقائی اثر و رسوخ متاثر کرسکتی ہے۔