امریکہ نے عالم اسلام میں اپنی پالیسیوں سے جس طرح کے عدم استحکام کو ہوا دینے کی کوشش کی تھی اس کے بھیانک نتائج بتدریج ساری دنیا کے عوام کے لئے سنگین ثابت ہوتے جارہے ہیں ۔ عراق کے تازہ بحران نے اس ملک پر 2003 سے مسلط کی گئی ناقص پالیسیوں کی المناک کیفیت کو آشکار کردیا ہے ۔ ان ابتر حالات کے لئے سب سے پہلا قصوروار شخص ہالیڈرکس کو قرار دیا جائے گا، امریکہ کے اس وقت کے صدر جارج بش یا ان کے وزیر کولن پاول کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا یا موجودہ صدر براک اوباما اور ان کی انتظامی ٹیم کی عدم کارکردگی کو قصوروار مانا جائے گا ۔ اسو قت مشرق وسطیٰ میں عراق اور شام کے حالات عالم اسلام کے ساتھ ساتھ ساری امن پسند دنیا کے لئے تشویشناک ہوگئے ہیں۔ کولن پاول نے 2003 ء میں صدام حسین کو معزول کرنے کے خلاف انتباہ دیا تھا ۔ جارج بش کے لئے کولن پاول کا یہ انتباہ کوئی معنی نہیں رکھ سکا تو جارج بش نے عراق پر حملے کرکے صدام حسین کی حکومت کو معزول کردیا ۔ پاول کی رپورٹ پر غور کرنے والے امریکی تھینک ٹینک آج کے عراق کے حالات کے تناظر میں یہی سوچ رہے ہوں گے کہ کولن پاول نے جو کچھ کہا تھا اس پر جارج بش اگر عمل کرتے تو مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ساری دنیا کی صوتحال اور معاشی کیفیت اتنی دگرگوں نہ ہوتی ۔ عراق پر ایک بار پھر امریکی فوجی طاقت کے استعمال کامطلب یہ ہوگا کہ ساری دنیا کی امن پسند عوام امریکہ سے یہ توقعات وابستہ کرلیں گے تو تمام مسائل کا حل ہوجائے گا ۔ عراق کے 25 ملین عوام نے بھی امریکہ سے توقع کرلی تھی کہ وہ ان کے کئی مسائل کو حل کرنے کے علاوہ ان کی روزمرہ زندگی کو بہتر بنانے میں معاون ہوگا
لیکن 11 سال بعد بھی عراق تشدد کی آگ سے محفوظ نہیں ہے تو عالمی امن کی چوکیداری کرنے والے امریکہ کو انصاف کے کٹہرے میں لانے سے امن پسند عوام خاموش کیوں ہیں؟ عراق کے حالات جب قابو میں نہ لائے جاسکے تو امریکہ کے ایک اور اس وقت کے وزیر خارجہ جوئے بیڈن نے مشورہ دیا کہ تھا کہ عراق کو نسلی ، مذہبی اور علحدگی پسندوں کے خطوط پر منقسم کیا جانا چاہئے ۔ انھوں نے عراق کو متحد رکھنے کے بجائے اسے مختلف حصوں میں منقسم کرنے کا مشورہ دیا تھا اگر ایسا ہوتا تو یہ سب سے زیادہ ابتر حالات کو دعوت دینے والا اقدام ہوتا۔ امریکہ کے اخبارات نے آج کے عراق کے حالات اور امریکی حکمرانوں کی غلطیوں کی تجزیاتی رپورٹیں شائع کی ہیں جس سے امن پسند عوام کو اندازہ ہوگیا ہے کہ مغربی طاقتوں نے عالم اسلام کو کن مقاصد کے تحت عدم استحکام کی کھائی میں جھونکنا چاہا تھا ۔ امریکہ کے موجودہ صدر براک اوباما کے تعلق سے یہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے شروع سے ہی عراق جنگ کی مخالفت کی تھی۔ انھوں نے 2008 ء میں اپنی انتخابی مہم کی پلیٹ فارم کو ہی عراق جنگ کے اختتام کے لئے مہم چلائی تھی ۔ ان کی اس پالیسی کی وجہ سے بعض ناقدین نے آج کی عراق کی شورش پسندانہ کیفیت کو ذمہ دار مانا ہے ۔ امریکہ کی موجودہ حکومت نے عراق کے حالات کو کھلی چھوٹ نہ دی ہوتی تو شورش پسندی کا رجحان فروغ نہیں پاتا ۔ عراق کے ابتدائی حالات میں خانہ جنگی حکومت کے خلاف باغیانہ سرگرمیاں انجام دینے والوں کو امریکی صدر براک اوباما کی نرم پالیسی سے ایسا حوصلہ ملا کہ ان کی جنگجوانہ سرگرمیاں تیز ہوگئیں۔
اس لئے اب اوباما کی خارجہ پالیسی پر کئی سوال اُٹھائے جارہے ہیں اور انھیں ایک غیرمقبول صدر امریکہ کے زمرہ میں شمار کیا جانے لگا ہے ۔ مغربی طاقتوں کی ناکام پالیسیوں کا خمیازہ مشرق وسطیٰ کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے تو اس پر عالمی امن اور انسانی حقوق کی دہائی دینے والی تنظیمیں ، ادارے خاموش کیوں ہیں۔ عراق میں القاعدہ سے حوصلہ پانے والے گروپس باہمت اور مسلح ہوکر پیشرفت کررہے ہیں تو اس کا مطلب عراق کا سرکاری ڈھانچہ بہت ہی کمزور ہے ۔ امریکہ نے 10 برس تک عراق کو جنگ زدہ حالات سے دوچار کرکے مقامی فوج اور حکومت کو یوں کمزور حالت میں چھوڑ دیا ہے ۔ گزشتہ 8 سال سے اقتدار پر رہنے والی حکومت اور زیراعظم نوری المالکی کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگ رہا ہے ۔ ان کی حکومت نے عراق میں نہ ہی سکیورٹی صورتحال کو مضبوط بنایا اور نہ ہی شیرازہ بندی اور خوشحالی کے لئے ٹھوس کام انجام دیئے ۔ اب امریکہ پر پہل کرکے ایران سے براہ راست بات چیت کرنے کے لئے زور دیا جارہا ہے ۔ عراق کی شورش پسندی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو دور کرنے کیلئے کوئی سمجھداری کا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ عراق میں ہونے والے قتل عام کے تازہ واقعات یقینا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ اقوام متحدہ نے انھیں جنگی جرائم کے مترادف قرار دیا ہے ۔ ایسے میں صدر امریکہ براک اوباما اپنی غلطیوں سے ہونے والی خرابیوں کو درست کرنے کیلئے وقت کا انتظار کررہے ہیں تو عراق کے تیزی سے بدلتے ابتر حالات انھیں سنبھلنے کا موقع نہیں دیں گے ۔ عراق میں 2003 کے بعد کے حالات کا احیا ہوا ہے ۔ ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ اس ملک پر تشدد کا اثر تیل کی پیداوار پر پڑے گا ۔ عراق میں مقیم بیرونی شہریوں کے تحفظ و سلامتی بھی اہم ہے ۔ ہندوستان کے کئی شہری اس وقت عراق میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان میں قیدیوں کی طرح محروس ہونے کا احساس پیدا ہوگیا ہے تو حکومت ہند اور دیگر اقوام کو ان کی صورتحال پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔