صدر افغانستان اشرف غنی اپنے ملک کی ترقی کی راہ میں حائل دہشت گردی کے سایہ کو دُور کرنے کی غرض سے عالمی سطح پر مختلف ممالک کا دورہ کرتے ہوئے تعاون حاصل کرنے کوشاں ہیں۔ اس کوشش کے حصہ کے طور پر انہوں نے ہندوستان کا دورہ کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔ افغانستان کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات دیرینہ اور مستحکم ہیں۔ وزیراعظم مودی نے بھی نئے صدر افغان کا خیرمقدم کرتے ہوئے ہندوستان کی جانب سے ہر ممکنہ تعاون کے عہد کا اعادہ کیا ہے۔ انہوں نے افغانستان کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملاکر پرامن مقاصد کو فروغ دینے کا عہد کیا ہے۔ افغانستان کے عوام کی خوشحالی اور ترقی کے لئے ہندوستان نے ہمیشہ قدم اٹھائے ہیں۔ اگرچہ اس مرتبہ دونوں ملکوں کے درمیان کئی معاہدوں پر دستخط نہیں کئے گئے تاہم کئی شعبوں میں تعاون کرنے کیلئے دونوں قائدین نے اپنے جذبہ کا اظہار کیا ہے۔
دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ایک مشن کو کامیاب بنانے کی جانب زور دیا گیا۔ بلاشبہ افغانستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات محض دو ملکوں کے روابط ہی نہیں بلکہ یہ تعلقات انسانی دلوں سے مربوط ہیں۔ 14 سال قبل ہندوستان نے افغانستان کے ساتھ جن تعلقات کو فروغ دینے کے لئے نئے باب کا آغاز کیا تھا، اس کو مضبوط سمت دینے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کو ایک نئے دور میں داخل ہونے کے لئے مدد کرنا ہندوستان کا فریضہ ہے کیونکہ ہندوستان کو اپنے پڑوسی ملک افغانستان کے درد کا احساس ہے ،تشدد اور دہشت گردی نے ہزاروں جانوں کو ضائع کیا ہے تو ترقی کی راہوں کو بھی تنگ کردیا ہے۔ صدر افغانستان کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد اشرف غنی ،اپنے ملک کی اقتصادی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لئے دہشت گردی کے منحوس سایہ کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن عالمی سطح پر ان کی کوششوں کی حمایت توقع کے مطابق نہیں کی جارہی ہے۔ ہندوستان نے افغانستان کے تعمیر نو کے لئے 2 بلین ڈالرس کی امداد دی ہے۔ اس جنگ زدہ ملک کی تعمیر نو پروجیکٹ عالمی توجہ کا بھی محتاج ہے۔ اشرف غنی کو بھی اپنے ملک کی غربت اور بدعنوانیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کرنے کی فکر لاحق ہے۔ اس لئے انہوں نے حالیہ دورۂ امریکہ کے موقع پر دنیا بھر کے ماہرین سے خواہش کی تھی کہ غریب ملکوں میں پھیلے ہوئی بدعنوانیوں کو ختم کرنے کیلئے جامع منصوبے پیش کریں۔ افغانستان میں امن کی شدید ضرورت ہے۔ بحالی امن کے لئے ڈپلومیسی کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ ایک مضبوط فوج اور ایک سنجیدہ کوشش کے ساتھ اٹھایا قدم بھی قومی شیرازہ بندی کے ساتھ امن لانے میں معاون ہوسکتا ہے۔ صدر اشرف غنی کو اپنے ملک کی دوسری طاقت طالبان کے معاملے میں محتاط دیکھا جارہا ہے۔ اگر طالبان، القاعدہ کی راہ ترک کرکے اپنے ملک افغانستان کی فلاح و بہبود پر توجہ دیں تو حکومت کا کام آسان ہوسکتا ہے۔ طالبان کو افغانستان کے لئے حب الوطنی کے جذبہ کے ساتھ کام کرنے کی ترغیب تو دی جارہی ہے مگر اس میں کامیابی نہیں ملی۔ اپنی حکمرانی کے 6 ماہ کے دوران اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ کسی پیشرفت میں کامیابی حاصل نہیں کی ہے مگر انہوں نے اُمید کا دامن بھی نہیں چھوڑا ہے۔ ان کے سامنے طالبان کے خلاف دونوں اختیارات، فوجی کارروائی یا مذاکرات کو کھلا رکھا ہے۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے پہلے ہی دن فوجی اختیار کو کھلا رکھا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مذاکرات کے ذریعہ تشدد کو ختم کرنے کے لئے سیاسی عمل میں شامل ہونے کی طالبان کو دعوت بھی دی تھی۔ فی الحال افغانستان کے اندر اشرف غنی کو کئی مشقت والے کام کرنے ہیں۔ ان کے دورۂ ہندوستان سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت، معیشت، سکیورٹی اور عوام سے عوام رابطہ کو فروغ حاصل ہوگا۔ ہندوستان نے افغانستان کے لئے انفراسٹرکچر، زراعت، رابطہ کاری، فروغ انسانی وسائل کے کاموں، کمیونٹی پروجیکٹس میں حصہ لیا ہے تو اس کے نتائج بھی مثبت آرہے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے بھی افغانستان کے ساتھ علاقائی اور عالمی سطح ہندوستان کے کاندھے سے کاندھا ملاکر چلنے کا عزم ظاہر کیا ہے تو جنوبی ایشیا کے ان قدیم ملکوں کے تعلقات کی جڑوں کو مزید مضبوطی ملے گی۔