صدر افعانستان حامد کرزئی

عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
صدر افعانستان حامد کرزئی
صدر افغانستان حامد کرزئی اپنی سبکدوشی کے ایام میں امریکہ پر غم و غصہ کا اظہار کررہے ہیں۔ افغانستان کی آج کی کیفیت اور گذشتہ 11سال سے ہونے والی انسانی، معاشی، سیکورٹی تباہی پر خاموش رہنے والی قیادت نے القاعدہ اور امریکہ پر حملے کے واقعات کو فرضی داستان قرار دیا۔ یہ ساری دنیا جان چکی ہے کہ القاعدہ کے نام پر مغربی طاقتوں نے اپنے ناپاک عزائم کو بروئے کار لایا ، خاص کر یہودی طاقتور لابی نے عالم اسلام کو کمزور کرنے کیلئے القاعدہ کا فرضی ڈرامہ اسٹیج کیا اور اسے اتنامقبول بنادیا گیا کہ امریکہ کا ہر شہری اپنے علاوہ دنیا کے مابقی انسانوں کو القاعدہ کے کردار میں دیکھنے لگا۔ لیکن اس حقیقت کی پول بھی جلد ہی کُھل گئی تو سابق صدر جارج بش کے خلاف عوام کی آنکھیں بھی کُھل گئیں۔ اَب افغانستان کو جس طرح کا نقصان پہونچایا گیا اور بحران میں جس طرح کی تباہی لائی گئی اور مابقی عالم اسلام کو نوچ لینے کے لئے مغربی ناخن کا بے تحاشہ وحشیانہ استعمال کیا گیا، اس کی تلافی کون کرے گا؟۔ افغانستان میں صدر حامد کرزئی کا بیان ’دودھ پھوٹنے کے بعد رونے‘ سے کیا فائدہ کے مصداق ہے۔ اس جنگ نے لاکھوں انسانوں کی جانوں کو تلف کردیا۔ معدنی ذخائر تباہ ہوئے، انسان کا سکھ چین تباہ ہوگیا۔ معاشی طاقت درہم برہم ہوگئی۔ امریکہ کے حکمرانوں کی فاش غلطیوں کی سزاء انسانوں کو مل رہی ہے۔ افغانستان پر دو میعاد تک حکمرانی کرنے کے بعد صدر حامد کرزئی، اپنے ملک کی تباہ کن حالت اور مغربی طاقتوں کی زیادتیوں کے درمیان جو موازنہ کررہے ہیں اس سے افغان باشندوں کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحاد کی صورت، عوام، حکومت اور فوج کے ساتھ ہرگز نہ تھے مگر حقیقیتاً امریکی دہشت گردی کے خلاف فوج نے ڈرا دھمکاکر ساری دنیا کے عوام کو خوفزدہ کردیا تھا۔ امریکہ کی جنگ عالم اسلام کے خلاف جنگ تھی، وہ عالم اسلام سے لڑ رہے تھے اور سارا عالم اسلام اپنے آپ سے لڑ رہا تھا۔ اب اسے ماننے میں کوئی دقت نہیں۔ امریکہ کا ساتھ دینے والے ملکوں نے ڈالروں کی بارش کی لالچ میں انسانی قدروں کو پامال کردیا تھا۔ اس جنگ میں افغانستان کے علاوہ دیگر ملکوں کے معصوم شہریوں کے علاوہ ہزاروں افراد جو ڈھال کے طور پر مارے گئے وہ سب ایک فرضی داستان کی بھینٹ چڑھ گئے۔ افغانستان میں جو کچھ ہوا، وہاں کی حکومت کے طور پر صدر حامد کرزئی نے امریکہ کو برسوں دودھ پلایا تھا تو اَب ان پر افسوس کرنے سے فرضی داستانوں کا نتیجہ بھیانک برآمد کردیا گیا۔افغانستان میں حالیہ رونما ہونے والے واقعات کے تسلسل نے امریکہ کی حکمت عملی کی بابت شکوک و شبہات میں ایک بار پھر جان ڈال دی ہے۔ اگرچہ امریکی حکام بدستور مصر تھے کہ ان کے منصوبے صحیح پٹری پر ہیں اور یہ کہ امریکہ کی حکمت عملی میں کسی تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ صدر حامد کرزئی کا بیان افغانستان کے زمینی حقائق اور ناٹو کے یہاں سے انخلاء کے ڈیڈ لائین کے مابین الگ فرق ظاہر کرتے ہیں۔ افغانستان میں آنے والے انتخابات سے قبل یا بعد میں صورتحال ہرکسی کے کنٹرول کے باہر نکل جانے کے خطرے سے دوچار حالات رونما ہوں تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی۔ امریکہ کی حکمت عملی کے دو بنیادی نکات جن کا مقصد افغانستان سے پُرامن انخلاء کو یقینی بنانا ہے تو اس سے پہلے کے حالات کے غیریقینی کے بادل چھارہے ہیں۔ یعنی افغانستان کی فوج کے ساتھ اس وقت شراکت کار کو سیکوریٹی کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لینا ہے اور طالبان کو اس پر آمادہ کرنا کہ وہ امن کے عمل میں شمولیت اختیار کرلیں تو پھر 11سال پہلے امریکہ نے القاعدہ کی جو کہانی پیش کی تھی وہ صدر فغانستان حامد کرزئی کے مطابق فرضی داستان ہی تھی۔ افغانستان کی زمینی صورتحال نازک ہے۔ ایسے میں عام انتخابات کے انعقاد کو پُرامن بناتے ہوئے نئے صدر کے انتخاب کو شفاف و آزادانہ عمل بنانا ضروری ہے۔ افغانستان میں نام نہاد استحکام کے امکانات کو موہوم بنانے کے بجائے امریکہ کو اپنی طرزِ فکر پر نظر ثانی کرنے اور اپنی حکمت عملی پر دوبارہ غور کرتے ہوئے اس کی تلاش کے لئے ہم آہنگ کوشش کرنی ہوگی۔ صدر افغانستان حامد کرزئی نے امریکہ کے عوام سے اظہار تشکر کیا ہے کہ ان کی امداد سے ہی اس جنگ سے تباہ ملک کو ایک وقت کی روٹی کے حصول کا قابل بنادیا۔ جبکہ سرزمین افغانستان خوددار شہریوں کا مقام کہلاتی ہے۔ یہاں کے عوام کو اپنے بس میں کرنے والی مغربی طاقتوں کو آگے چل کر اپنی خوددار قوم کے آگے بے بس ہونا پڑے گا۔ افغانستان میں گذشتہ 11سال سے غیر ملکی غاصبیت کے خلاف بڑھتی ہوئی عوامی ناراضگی کا سنگین اشارہ صدر حامد کرزائی نے اپنی سبکدوشی کے ایام میں دے دیا ہے۔ نئے انتخابات کے بعد نئے صدر کی نامزدگی اور نئی حکومت سے افغان عوام، افواج اور سیکورٹی محافظوں کو بھی اپنے ملک کی حفاظت کرنے اور اسے بیرونی طاقتوں سے پاک بنانے کے اقدامات کرنے ہوں گے۔