صدرجمہوریہ کا خطاب

ہر سال یہی کہتے ہیں گلشن کے نگہباں
امسال نہیں فصل بہار اب کے برس ہے
صدرجمہوریہ کا خطاب
صدرجمہوریہ پرنب مکرجی نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوان کے مشترکہ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کی پالیسیوں کو جمہوری ملک کے عوام کے سامنے رکھا ہے جس میں بی جے پی کے انتخابی منشور اور نریندرمودی کے10 نکاتی ایجنڈہ کا واضح طور پر تذکرہ کیا گیا۔ ترقیاتی اقدامات کے نام پر بہت کچھ کرنے کے عزم کے ساتھ برقی بحران، غربت کا خاتمہ، روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کس طرح پورا کیا جائے گا اس پر کوئی ٹھوس پالیسی تذکرہ نہیں کیا گیا۔ 55 منٹ کی تقریر میں پرنب مکرجی نے ملک بھر میں آئی آئی ایم ایس اداروں کے قیام کے ذریعہ پیشہ ورانہ تعلیم کو عام کرنے کی جانب پالیسیوں کا حوالہ دیا ہے لیکن سوال یہ ہیکہ کیا ہندوستان کی 70 فیصد غریب آبادی کو صرف آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم ایس کے ذریعہ ایک اچھی زندگی فراہم کی جاسکتی ہے جبکہ ملک میں دیگر کئی اہم شعبوں میں ماہرانہ صلاحیتوں کے حامل افراد کا فقدان پایا جاتا ہے جس ملک میں غریب خاندانوں کو صاف صفائی اور بہتر صحت کا مسئلہ درپیش ہو تو وہاں دیگر ترقیاتی کاموں کا وعدہ محض ایک سراب معلوم ہوتا ہے۔ غذائی ٹیکنالوجی کے شعبہ اپنی عدم صلاحیتوں کی شکایت کرتے ہیں۔ صنعتی سلامتی کا سنگین مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے۔ زرعی پیداوار کو بڑھانے کیلئے کوئی عصری منصوبہ وضع نہیں کیا گیا۔ صحت کے شعبہ میں ناقص نرسنگ اور پیرا میڈیکل کے ابتر انتظامات سے غریب بستیوں میں اموات کو روکنے کا کوئی مؤثر انتظام نہ ہو تو پھر کوئی بھی حکومت آئے عوامی مسائل تو برقرار رہیں گے۔ نریندر مودی حکومت نے صدرجمہوریہ کے ذریعہ اپنی پالیسیوں کو واضح کرنے کی کوشش ضرور کی ہے مگر اس پر عمل آوری کا جہاں تک سوال یہ ناقابل یقین ہے کیونکہ مودی حکومت جس آئی آئی ٹیز یا آئی آئی ایمس شعبوں کی بات کررہی ہے اس میں خود بہترین انفراسٹرکچر کا فقدان پایا جاتا ہے۔ آئی ٹی شعبہ کو برقی سربراہی میں کمی سے یہ ترقی کے ان منازل کو حاصل نہ کرسکا جس کا نشانہ مقرر کیا گیا تھا۔ سرکاری شعبوں میں رشوت ستانی کا مسئلہ مودی حکومت کا اصل موضوع تھا۔ بی جے پی کے انتخابی منشور میں بھی کرپشن سے پاک ہندوستان بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن جب سرکاری اداروں، بیورو کریٹس میں اصلاحات، قانون کے نفاد کی ذمہ دار اداروں کو پابند قانونبنانے میں ناکامی سے کرپشن کا مسئلہ ختم نہیں ہوگا۔ سابق کانگریس حکومتوں میں بھی موجودہ حکومت کی طرح بلند بانگ دعوے کئے گئے تھے مگر نتیجہ میں عوام کو کچھ حاصل نہ ہوسکا۔ ملک میں جامع ترقی کے لئے نریندر مودی کا 10 نکاتی پروگرام بنیادی طور پر ٹھوس جذبہ اور منصوبوں سے عاری ہو تو اس کا بھی حشر سابق حکمرانوں کے پروگراموں کے مطابق عوام کے لئے بے فیض ثابت ہوگا۔ نریندر مودی حکومت نے البتہ عوام میں یہ امید تو پیدا کی ہیکہ وہ سابق حکمرانوں کی طرح کاہل اور تساہل سے کام نہیں لے گی۔ انتخابات کے موقع پر خوش کن وعدوں کے ساتھ پارٹی کا منشور تیار کرنے اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوان کے مشترکہ سیشن سے ملک کے دستوری عہدہ کی اعلیٰ شخصیت کی زباں سے اس منشور کو دہرانے کی کوشش کی جانا ایک افسوسناک عمل کہلاتا ہے۔ صدرجمہوریہ کی تقریر کو تمام اپوزیشن پارٹیوں نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ملک میں فرقہ پرستی اور زہرافشانی کے ذریعہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے والی طاقتوں کو کچلنے کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔ حال ہی میں مہاراشٹرا کے علاقہ پونے میں ایک مسلم سافٹ ویر انجینئر کا ہندو کٹر پسند تنظیم کے کارکنوں کی جانب سے قتل جیسے واقعات کو روکنے کیلئے بھی مودی حکومت کا کوئی ٹھوس قدم اٹھتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ صدرجمہوریہ کی تقریر کو بی جے پی کی زبان دینے سے کئی ایک شبہات اور اندیشے پیدا ہوتے ہیں۔ صدرجمہوریہ کی تقریر کو تیار کرنے والی کابینہ نے ترقیات سے متعلق بات کی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ آخر معاشی ترقی یا معاشی پیداوار کے نشانہ کو حاصل کرنے کے لئے کیا مثالی اقدامات کئے جائیں گے۔ عوام کو صرف خوابوں اور توقعات کی گولی دے کر میٹھی نیند سلانے کی کوشش کی جارہی ہے تو مودی حکومت کی یہ ابتدائی کوشش ہی خرابیوں کے آغاز کا موجب ہوگی۔ صدرجمہوریہ کی تقریر کا عوام الناس کی زندگیوں پر کافی اثر پڑتا ہے۔ عوام اس تقریر میں اپنے بہتر مستقبل کی کرن دیکھنے کی آرزو رکھتے ہیں جب انہیں اپنی روزمرہ زندگی میں مسائل ہی مسائل ہوں گے۔ مودی حکومت نے ملک کی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں اور مدرسوں کو عصری طرز پر ترقی دینے کا منصوبہ تیار نہیں کیا ہے۔ اقلیتوں کے بارے میں مودی حکومت سے کوئی خاص توقع بھی نہیں کی جاسکتی لیکن ایک دستوری ذمہ داری کی حامل شخصیت اور حکمرانی کو اس ملک کے دستور کے مطابق ہر ایک ہندوستانی کے ساتھ مساویانہ سلوک کرنا اولین فرض ہوتا ہے۔ مودی حکومت اس دستوری فرض سے پہلوتہی کرتی نظر آرہی ہے۔ جس کو اچھی شروعات نہیں کہا جائے گا۔