صدرجمہوریہ کا خطاب

حکومت کی ذمہ داری میں عوام کو تعلیم، صحت اور انسانی وسائل کی ترقی پر توجہ دینا ہے لیکن ان دِنوں یہ کام حکومت کے لئے بہت مشکل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ بجٹ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے صدرجمہوریہ پرنب مکرجی نے عوام کے بنیادی مسائل پر حکومت کی مثبت پالیسیوں کا کوئی خاص تذکرہ نہیں کیا اور آج کے سُلگتے نازک مسائل جیسے جواہر لال نہرو یونیورسٹی تنازعہ، حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں ایک دلت طالب علم کی خودکشی کے علاوہ دیگر اہم مسائل کی جانب توجہ بھی نہیں دی گئی۔ ان دنوں یونیورسٹیوں کے معاملے کو لے کر صورتِ حال اتنی تشویشناک ہے کہ اس پر ملک کے جلیل القدر عہدہ پر فائز صدرجمہوریہ کو فوری توجہ دینے اور اپنی دانش کے مطابق حکومت کے حوالے سے عوام کو صبر و سکون سے رہنے کی خواہش کرنے کی ضرورت تھی۔ صدرجمہوریہ کے خطاب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپوزیشن پارٹیوں نے یہی کہا ہے کہ صدرجمہوریہ کا خطاب عوام کے لئے ’’مایوس کن‘‘ ہے۔ ان کے خطاب میں ایسی کوئی نئی بات نہیں ہے کہ جس سے توقع کی جاسکے کہ آنے والے برس تک ملک کی معاشی، سکیورٹی اور سماجی صورتِ حال بہتر ہوجائے۔

سرحدی تنازعات، رشوت کے خاتمہ اور دیگر اہم اُمور پر حکومت کی ترجیحات کو پیش کرتے ہوئے صدرجمہوریہ نے یہ ضرور کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے ساتھ تنازعات کی یکسوئی کرلینا حکومت کا ترجیحی منصوبہ ہے۔ سرکاری محکموں سے رشوت کے خاتمہ کیلئے حکومت نے ممکنہ اقدامات شروع کئے ہیں۔ پارلیمنٹ میں نظم و ضبط کی برقراری، اپوزیشن کے احتجاج کے سامنے حکومت کی جوابی کارروائیوں کو لے کر صدرجمہوریہ نے تشویش ظاہر کی اور کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کو درہم برہم کرنے سے بہتر ہے کہ تمام اپوزیشن اور حکمران پارٹی ہر مسئلہ پر خوش دِلی اور نیک نیتی سے بحث و مباحث کرے۔ پارلیمنٹ کو عوامی توقعات کا ’’اہم مرکز‘‘ قرار دیتے ہوئے صدرجمہوریہ نے آنے والے مالیاتی سال میں حکومت کے ایجنڈہ کا احاطہ کیا مگر اس ایجنڈہ پر نیک نیتی سے عمل کیا جائے گا، اس کی انہوں نے کوئی ضمانت نہیں دی۔ عوام کے سامنے اعلانات کرنا اور انہیں تیقنات دینا الگ بات ہے۔ اس پر واقعی عمل آوری ایک دیانت دارانہ مسئلہ ہے۔ اگر حکومت کی پالیسیاں اور ایجنڈہ دیانت دارانہ طور پر روبہ عمل لایا جائے تو بلاشبہ عوام کی توقعات پوری ہوتی دکھائی دیں گی، لیکن حکومت کے پاس سیاسی ایجنڈہ کے سواء کچھ نہیں ہوتا۔ عوام ، حکومت سے مایوس کیوں ہوتی ہیں، اس پر ہرگز غور نہیں کیا جاتا۔ حکومت یہ نہیں سوچتی کہ اگر گلاس آدھا بھرا ہو تو وہ آدھا خالی بھی تو ہوتا ہے۔

حکومت اپنے وعدوں کو جب آدھا پورا کرتی ہے تو اس سے ترقی کی توقع بھی آدھی ہی ہوگی۔ صدرجمہوریہ نے 20 صفحات پر مشتمل اپنی تقریر میں مختلف شعبوں میں کی جانے والی کوششوں اور اقدامات کے حوالے سے نریندر مودی حکومت کی پالیسیوں پر اپنی مہر ثبت کردی ہے تو یہ روایتی تقریر کے سواء کچھ نہیں ہے۔ صدرجمہوریہ نے کالے دھن کو روکنے اور اس پر قابو پانے حکومت کی کوششوں کا تذکرہ کیا مگر اس حکومت نے انتخابات کے موقع پر بیرونی ملکوں میں رکھے گئے کالے دھن کو واپس لانے کا وعدہ کیا تھا مگر اب تک اس وعدہ کی تکمیل کا انتظار کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کا نعرہ ’’سب کا ساتھ، سب کا وِکاس ‘‘صرف بی جے پی اور آر ایس ایس کے نظریہ کیلئے ہے۔ جب سے حکومت بنی ہے، صرف آر ایس ایس کا ایجنڈہ ہی عوام پر مسلط کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ معاشی ترقی کی باتیں ’’لفاظی و کاغذی‘‘ دکھائی دیتی ہیں۔ بی جے پی حکومت میں اپنے مخالفین کے خلاف سخت قوانین کا بے جا استعمال کرنے کی بات عام ہورہی ہے تو یہ تشویش کی بات ہے۔ غداری یا ملک دشمنی کے الزامات کے تحت اپنے ہی نوجوانوں کو پھانسا جارہا ہے تو یہ ایک خطرناک کھیل ہے جس کو بی جے پی حکومت اپنی سرپرست نظریاتی تنظیم ’’آر ایس ایس‘‘ کے اِشاروں پر کھیل رہی ہے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے اور کسی بھی جمہوری ملک میں سنگینی مناسب نہیں ہوتی۔ اسی طرح سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا حکومت اپنے اختیارات کی آڑ میں ایک ’’زعفرانی تنظیم‘‘ کے ایجنڈہ کو روبہ عمل لارہی ہے؟