صدرجمہوریہ کا خطاب

جو ہیں پاسبانِ گلشن انہیںکچھ خبر نہیں ہے
جنہیں پیار تھا گلوں سے وہی خار کھاگئے ہیں
صدرجمہوریہ کا خطاب
صدرجمہوریہ پرنب مکرجی نے یوم جمہوریہ کے موقع پر قوم سے خطاب کے دوران پڑوسی ملک پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ گولیوں کی بارش میں امن کی بات چیت نہیں ہوسکتی۔ پٹھان کوٹ میں ہوئے حالیہ دہشت گرد حملے نے پاکستان کو ایک بار پھر عالمی نظروں کے سامنے کھڑا کیا ہے۔ ہندوستان کو ایک طرف دہشت گردی کا سامنا ہے تو دوسری طرف اندرون ملک نفرت پھیلانے والی طاقتوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی خرابیوں سے جو حالات تباہ کن ہوں گے۔ اس پر توجہ بھی دلائی گئی۔ صدرجمہوریہ نے اپنے خطاب میں ہندوستان کے موجودہ حالات اور خرابیوں کا احاطہ کیا ہے، خاص کر دلتوں، مسلمانوں اور کمزور طبقات کے خلاف بڑھتے مظالم، تشدد، عدم روداری کو بڑھاوا دینے والی طاقتوں کے خلاف عوام کو متحد ہوجانے کا مشورہ دیا گیا۔ 67 ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر صدرجمہوریہ کا یہ خطاب صرف ایک لفظی اظہار خیال نہیں بلکہ ان کی تقریر معیارات کا جامہ پہنے تلخ حقائق اور سچائی پر مبنی تھی۔ ہر گذرتے سال کے ساتھ ہی ملک میں بدلتے حالات اور تعلیمی اداروں کے تشدد و نفرت کو ہوا دینے والے واقعات، افسوسناک حد تک بڑھتے جارہے ہیں۔ مرکز میں موجود حکومت کی یہ عادت بن گئی ہے کہ وہ ہر نکتہ چینی اور تنقید کو مسترد کردیتی ہے۔ اس پر ہونے والی تمام تنقیدوں کو اس نے ’’قوم دشمنی‘‘ سے تعبیر کرنا شروع کیا ہے۔ مثال کے طور پر جب اداکار عامر خاں نے عدم رواداری کا مسئلہ اُٹھایا تھا تو اس اداکار کے خلاف جو کچھ کارروائی ہوئی ہے، وہ سراسر ایک انتقام ہی ہوسکتی ہے۔ اس عدم رواداری کا دوسرا صدمہ خیز معاملہ یہ ہے کہ عامر خاں نے جس سچائی کا اظہار کیا تھا اس کا ساتھ دینے کے لئے خود ان کی فلمی صنعت کی شخصیتوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا بلکہ اقتدار کا خوف اس طرح طاری رہا کہ سب نے اپنے لب سی لئے تھے۔ صدرجمہوریہ نے ہندوستانی عوام کو کھل کا مشورہ دیا کہ وہ تشدد کرنے والوں اور عدم رواداری کی حرکتوں کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف چوکسی اختیار کریں مگر صدرجمہوریہ نے بھی ان طاقتوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے اور منظم احتجاج کرنے کا مشورہ دینے سے گریز کیا۔ ملک میں جہاں حقیقت پسندوں کا قتل ہوتا ہے، گوشت کھانے کے الزام میں قتل کیا جاتا ہے، ٹرین میں سفر کرنے والے مسلم جوڑوں کو گوشت ساتھ رکھنے کے شبہ پر زدوکوب کیا جاتا ہے، ایک یونیورسٹی میں دلتوں کو تعلیم سے محروم کرنے کی سازش کی جاتی ہے تو یہ ایک جمہوری ہندوستان کی حقیقی تصویر نہیں ہوسکتی۔ صدرجمہوریہ کا خطاب ہندوستانی تہذیب اور میراث کے حوالے سے اہمیت رکھتا ہے۔ ہندوستان کا بہترین ورثہ اور جمہوری ڈھانچہ ہر شہری کیلئے انصاف فراہم کرنے میں مضمر ہے۔ جب تک ہر شہری کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا، جمہوریت کے معنی و مفہوم معلق رہیں گے جب تک ہر شہری کے ساتھ معاشی اور سماجی مساوات کو یقینی نہیں بنایا جاتا، ہمارے ملک کی قومیت کی اہمیت بھی واضح نہیں ہوتی۔ صدمہ خیز سچائی ہے کہ ہمارے ملک کے تعلیمی ادارے اور کیمپس نفرت پھیلانے کے مراکز بنادیئے جارہے ہیں۔ کمزور اقلیت کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مدراس کے آئی آئی ٹی میں ایک دلت طالب علم گروپ پر الزام عائد کیا گیا کہ اس نے نفرت کا ماحول پیدا کیا ہے، جبکہ یہ طالب علم ، بیف پر پابندی، گھر واپسی، اراضی و لیبر اصلاحات کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا، اس سے سب واقف ہیں۔ جہاں دلت طلباء کے گروپ نے مظفر نگر فسادات کے خلاف مظاہرہ کیا تھا اور یعقوب میمن کو پھانسی دینے کی مخالفت کرتے ہوئے احتجاج کیا تھا لیکن ان دلت طلباء کی نشاندہی کرکے انہیں نشانہ بنایا گیا۔ اتنا ہی نہیں ملک کے کونے کونے میں لوگ اقلیتوں کو مختلف عنوانات سے نشانہ بنارہے ہیں۔ معمولی معمولی باتوں اور کسی وجہ کے بغیر اقلیتوں پر ظلم کیا جارہا ہے۔ قومی ترانہ کا احترام نہ کرنے کے الزام میں لوگوں کو زدوکوب کرنے کے واقعات بھی ہوتے ہیں۔ یہ سب تلخیاں اس وقت صدمہ خیز معلوم ہوتے ہیں جب ہم یوم جمہوریہ اور جمہوریت کی افادیت پر توجہ دیتے ہیں۔ صدرجمہوریہ کا خطاب بلاشبہ حکمرانوں، قانون سازوں اور قومی اداروں کے ذمہ داروں کی توجہ کا محتاج ہے مگر اس طرح کی باتیں اور مشورے ان کے کان تک نہیں پہونچتے۔ ہمارے ملک کے لیڈران ایسے بھی ہیں جو مسائل کی یکسوئی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ بصیرت اور عمل درآمد کے معاملے میں وہ کمزور ہوتے ہیں۔ حکمرانوں کی پہلی ترجیح صدرجمہوریہ کے خطاب میں جن باتوں کی جانب توجہ مبذول کروائی گئی ہے، اس پر دھیان دینا چاہئے مگر ایسا نہیں ہوتا۔ نتیجہ میں ہر سال کی طرح اس سال کا بھی جشن جمہوریہ اور جمہوریت کی افادیت آئندہ سال کے کندھوں پر ڈال کر خاموش ہوجاتا ہے۔ آج انسانی جان اور اس کی عزت و حرمت کو کون کون سے خطرات ہیں، اس کا اندازہ کریں تو پتہ چلے گا کہ چند انسانوں کے دماغ اس طرح کام کررہے ہیں کہ کمزوروں کو مزید کمزور بنادیا جائے۔ ایسے لوگوں کے نزدیک جمہوریت کا کوئی معنی و مفہوم نہیں ہوتا۔