صدارتی عہدہ اور آر ایس ایس نظریہ

خود بے تعلقی بھی کچھ کم ستم نہیں ہے
ترک ستم سے پہلے اس کا خیال کرنا
صدارتی عہدہ اور آر ایس ایس نظریہ
آر ایس ایس نظریہ کی حامل شخصیتوں کو ہندوستان کے اہم عہدوں پر نامزد کرنے کا سلسلہ بڑھتا جانا تشویشناک ہے۔ صدرجمہوریہ کے جلیل ا لقدر عہدہ کیلئے امیدوا ر کا انتخاب خالص اتفاق رائے سے ہوتا ہے تو یہ ایک محسن قدم قرار پاتا مگر جب امیدواری کی دوڑ میں موزوں شخصیت کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس پر رائے منقسم ہوجاتی ہے۔ مرکز کی بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے دلت لیڈر امناتھ کووند کو اپنا امیدوار نامزد کیا تو کانگریس زیرقیادت اپوزیشن نے سابق لوک سبھا اسپیکر میراکمار کو صدارتی امیدوار مقرر کیا۔ دونوں صدارتی امیدوار دلت طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن یہاں قابلیت، تجربہ اور میرٹ کی بنیاد پر جانچ کی جارہی ہے تو اپوزیشن کے نامزد امیدوار کو ترجیح حاصل ہوگی۔ میراکمار پہلی خاتون تھیں جنہوں نے لوک سبھا اسپیکر کا عہدہ حاصل کیا تھا۔ اپوزیشن کی 17 سیاسی پارٹیوں نے انہیں اپنا امیدوار بنا کر این ڈی اے کے امیدوار کیلئے سخت نہ سہی ایک مضبوط مقابلہ پیدا کردیا ہے ۔ اپوزیشن کے اس فیصلہ پر حکمراں بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں سے تنقیدیں ہونا فطری امر ہے۔ سوال یہ اٹھایا جارہا ہی کہ جب کانگریس اقتدار پر تھی تو اس وقت اس نے کسی دلت لیڈر کو جلیل القدر عہدہ کیلئے نامزد نہیں کیا۔ آیا اس وقت میرا کمار کانگریس کیلئے مناسب امیداور نہیں تھیں؟ اپوزیشن کو اپنے فیصلہ کی مدافعت میں صرف یہ کہنے کی ضرورت ہورہی ہیکہ میرا کمار ایک قابل اور تجربہ کار سیاستداں ہیں۔ ان کی نامزدگی ان کے ذات کی وجہ سے نہیں ہوئی ہے۔ میرا کمار کو 25 سالہ پارلیمانی تجربہ ہے جبکہ وہ 9 سال تک وزارت میں رہ چکی ہیں۔ لوک سبھا اسپیکر کی حیثیت سے انہوں نے 5 سال کی میعاد پوری کی ہے۔ ایک ریٹائرڈ آئی ایف ایس آفیسر کی حیثیت سے میرا کمار نے ملک کی خدمت بھی کی ہے۔ مجاہد آزادی اور سماجی کارکن بابو جگجیون رام کی دختر کی حیثیت سے میرا کمار نے سیاسی میدان میں اپنا نام کمایا ہے۔ یو پی اے نے انہیں قابل اعتبار مقام دیا تھا۔ اس لئے عام خیال میں میرا کمار ہی رامناتھ کووند سے بہتر امیدوار ہوسکتی ہیں لیکن اس وقت مرکز کی حکمراں پارٹی کو سیاسی قوت حاصل ہے تو وہ اپنے امیدوار کو بہرحال کامیاب کرانے کی کوشش کریگی۔ الکٹورل کالج کے ذریعہ زیادہ ووٹ حاصل کرتے ہوئے این ڈی اے کے امیدوار کو منتخب کیا جائے گا۔ گورنر کی حیثیت سے خدمت انجام دے چکے رامناتھ کووند نے اپنا پرچہ نامزدگی داخل کرکے خود کو ایک غیرسیاسی شخصیت قرار دیتے ہوئے اپوزیشن کو بھی ان کی حمایت کرنے کی خواہش کی ہے۔ 17 جولائی کو مقررہ صدرجمہوریہ کے انتخاب کیلئے ملک کی بڑی سیاسی پارٹیوں میں کسی ایک امیدوار کے حق میں اتفاق رائے نہ ہونا بھی ایک جمہوری ملک کی نشانی ہے۔ ہر پارٹی کو اپنی پسند اور ناپسند کا اختیار رکھنے کا حق ہے۔ یہاں پر مقبولیت اور قابلیت کی پرکھ اور جانچ کرنے والوں کو اپوزیشن امیدوار میرا کمار کے حق میں دیکھا جاسکتا ہے۔ این ڈی اے امیدوار کے تقابل میرا کمار کی کامیابی کے ارکان کا جہاں تک سوال ہے الکٹورل کالج کے مطابق این ڈی اے کے حق میں زائد ووٹ ہیں۔ اپوزیشن کو مطلوب ووٹ حاصل کرنے کیلئے دیگر جماعتوںکی تائید کا حامل ہونا ضروری ہے۔ جنتادل یو کے موقف نے اپوزیشن کو کمزور کردیا ہے۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار نے صدر جنتادل یو کی حیثیت سے این ڈی اے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا ہے تو آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد کیلئے ایک دھکہ ہی ثابت ہوا۔ بہار میں مخلوط حکومت کے باوجود جنتادل یو نے بی جے پی کی جانب جھکاؤ ظاہر کرکے آر جے ڈی کانگریس سیکولر اتحاد کی افادیت کو ضرب پہنچائی ہے۔ بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کے پاس الکٹورل کالج میں 5.32 لاکھ ووٹ کی قدر ہے اسے صرف 17,500 ووٹوں کی کمی ہے جو مقابلہ جیتنے کیلئے صرف نصف نشانہ تک پہنچنے کیلئے کافی ہوتا ہے اگر بی جے پی کو اوڈیشہ کی بی جے ڈی اور ٹاملناڈو کی انا ڈی ایم کے کی تائید ملتی ہے تو این ڈی اے کے حق میں 6,28,195 الکٹورل ووٹ ملیں گے جو رامناتھ کووند کی کامیابی کیلئے مضبوط ووٹ ہوں گے۔ توقع کی جاتی ہیکہ ملک کے جلیل القدر عہدہ کیلئے سیاسی پارٹیوں میں کسی غیرصحتمندانہ انتخابی مقابلہ نہیں ہوگا بلکہ حکمراں اتحاد کے امیدوار کے مقابل اپوزیشن امیدوار میراکمار کو ان کے تجربہ و قابلیت کی بنیاد پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو پھر انتخابی عمل کا رخ بھی تبدیل ہوگا۔ اپوزیشن نے صدارتی امیدوار انتخاب میں تاخیر کی اور اس تاخیر کی وجہ سے ایک جلیل القدر عہدہ کیلئے موزوں امیدوار کے انتخاب میں مقابلہ آرائی کی نوبت آ گئی جس سے میراکمار کی قابلیت اور میناریٹی داؤ پر لگادی گئی ہے۔ اپوزیشن کی اس طرح کی گروپ بندی میں تاخیر اور غیرمتوازن فیصلے کا حکمراں جماعت پر کوئی اثر نہیں ہوگا اور 2019ء کے عام انتخابات میں وزیراعظم کیلئے بھی وہ بڑا چیلنج کھڑا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی مگر اصل سوال یہ ہیکہ آیا آر ایس ایس نظریات سے وابستہ کسی فرد کو ملک کا جلیل القدر عہدہ ملنا چاہئے۔
جی ایس ٹی پر عمل آوری ایک تکلیف دہ مرحلہ
مرکزی حکومت نے ملک بھر میں یکم ؍ جولائی سے گڈس اینڈ سرویس ٹیکس پر عمل آوری کا اعلان کیا ہے لیکن خود حکمراں پارٹی بی جے پی کے قائدین نے اس ٹیکس سے پارٹی کو ہونے والے سیاسی نقصانات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سال 2019ء کے انتخابات سے قبل جی ایس ٹی کے نفاذ اور مسائل سے جو صورتحال رونما ہوگی اس کا بی جے پی کیلئے آئندہ انتخابات جیتنے کے امکانات پر اثر پڑ سکتا ہے۔ ملک میں سب سے بڑے ٹیکس اصلاحات کااگرچیکہ خیرمقدم کیا جارہا ہے مگر اس کیلئے ریاستی حکومتیں کس حد تک تیاری کرچکی ہیں۔ یہ غیرواضح ہے جیسا کہ تلنگانہ حکومت کے بشمول کئی ریاستوں سے جی ایس ٹی پر عمل آوری کیلئے اپنی مشکلات کا اظہار کیا ہے۔ بینکوں نے بھی ہنوز اس نئے راست ٹیکس معاملہ کو روبہ عمل لانے کی تیاری نہیں کی ہے۔ انڈین بینک اسوسی ایشن نے پارلیمانی پیانل کو مکتوب لکھ کر واضخ کیا ہیکہ ملک بھر میں بنکس یکم ؍ جولائی سے جی ایس ٹی پر عمل آوری کی تیاری نہیں کی ہے۔ اس کا کہنا ہیکہ بنکوں کو اپنے سسٹم اور دیگر طریقہ کاروں میں تبدیلی لانے کیلئے وقت درکار ہوگا۔ ایسے میں یکم ؍ جولائی 2017ء سے بینکوں کے ذریعہ جی ایس ٹی پر عمل آوری کے مسئلہ پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ جی ایس ٹی سے سب سے زیادہ زرعی شعبہ کے متاثر ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کیونکہ جی ایس ٹی سے زرعی پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ کھاد کی قیمت 12 فیصد ٹیکس کے نفاذ کے بعد بڑھ جائے گی۔ جراثیم کش ادویات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ ٹیکسٹائیل کی صنعت بھی اس سے متاثر ہوسکتی ہے۔ جب اہم شعبوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے تو دیہی سطح پر ہی عوام کو زائد بوجھ کا سامنا کرنا پڑے گا اور آئندہ انتخابات تک عوام کی اکثریت کا جو کچھ ردعمل ہوگا اس کا اثر بی جے پی حکومت کے دوبارہ اقتدار پر آنے کے امکانات پر پڑ سکتا ہے۔