ٹی آر ایس کی جانب سے رام ناتھ کووند کی تائید کا خیر مقدم ۔ بی جے پی ترجمان کا بیان
حیدرآباد 25 جون ( پی ٹی آئی ) وہ وقت زیادہ دور نہیں گیا جب تلنگانہ میں برسر اقتدار ٹی آر ایس اور بی جے پی کے مابین لفظی تکرار چل رہی تھی تاہم اب ایسا نہیں ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ چیف منسٹر تلنگانہ و صدر ٹی آر ایس کے چندر شیکھر راؤ نے این ڈی اے کے صدارتی امیدوار رام ناتھ کووند کی تائید کا اعلان کیا ہے ۔ چندر شیکھر راؤ نے رام ناتھ کووند کی پرچہ نامزدگی کے ادخال میں بھی شرکت کی تھی ۔ اب بی جے پی کی تلنگانہ یونٹ کی جانب سے چیف منسٹر کے اس اقدام کی ستائش بھی کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے روایتی سیاست سے بالاتر ہوکر غیر جانبداری والا قدم اٹھایا ہے ۔ بی جے پی کے ریاستی ترجمان کرشنا ساگر راؤ نے کہا کہ بی جے پی ‘ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی جانب سے این ڈی اے کے صدارتی امیدوار کی تائید کا خیر مقدم کرتی ہے حالانکہ کے سی آر این ڈی اے کا حصہ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدام پر ہم یقینی طور پر کے چندر شیکھر راؤ کی قیادت کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے روایتی سیاست سے بالاتر ہوکر یہ قدم اٹھایا ہے ۔ گذشتہ مہینے ہی یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان استعمال کر رہی تھیں۔ اپنے دورہ تلنگانہ کے موقع پر بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے واضح کیا تھا کہ مرکز نے ریاست کو بھاری فنڈز فراہم کئے ہیں تاہم ان اعداد و شمار کی چیف منسٹر نے سختی سے تردید کی تھی ۔ انہوں نے اس پر امیت شاہ سے معذرت کا مطالبہ تک کیا تھا ۔ جب دونوں جانب سے ایک دوسرے کو غلط قرار دینے کی کوششیں ہوئیں تو دونوں کے مابین سخت الفاظ کا تبادلہ عمل میں آیا تھا ۔ بی جے پی نے یہ ادعا کیا تھا کہ وہ 2019 کے اسمبلی انتخابات میں ریاست میں کامیابی حاصل کرے گی ۔ تلنگانہ بی جے پی تاہم اب ٹی آر ایس کی جانب سے این ڈی اے کے صدارتی امیدوار کی تائید کو زیادہ اہمیت بھی دینے تیار نہیں ہے کیونکہ یہ ایک دستوری عہدہ ہے کوئی سیاسی عہدہ نہیں ہے ۔ کرشنا ساگر راؤ نے کہا کہ یہ در اصل وہ موقف ہے جہاں سربراہ مملکت کی جانب سے دستور ہند کا تحفظ کیا جاتا ہے جو ان کے خیال میں محتلف جماعتوں کے سیاسی نظریات سے بالاتر ہے ۔ بی جے پی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ریاست میں ٹی آر ایس حکومت کے خلاف جدوجہد میں کسی تن آسانی سے کام نہیں لیا جائیگا ۔ انہوں نے کہا کہ جب یہ حکومت خاص طور پر عوام کی توقعات پر پوری نہیں اترے گی تو حکومت کے خلاف بی جے پی کی جدوجہد جاری رہے گی ۔