علامہ سید احمد سعید کاظمی
حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے مقدمہ شرح صحیح مسلم میں فرمایا کہ علمائے محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد اصحی الکتب صحیحین ہیں، یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم ان دونوں کے حق میں امت مسلمہ کی تلقی بالقبول ان کی عظمت کی روشن دلیل ہے۔
علماء کے نزدیک صحت و فوقیت میں صحیح بخاری کا مرتبہ صحیح مسلم پر فائق ہے اور بخاری، مسلم سے اصح ہے، اس کے فوائد مسلم کے فوائد سے بہت زیادہ ہیں اور اس کے ظاہری و باطنی محاسن و معارف بے شمار ہیں۔ امام مسلم نے خود امام بخاری سے استفادہ کیا اور اس بات کا اقرار کیا کہ امام بخاری علم حدیث میں بے نظیر ہیں۔ امام حاکم کے شیخ حسن بن علی نیشاپوری اور بعض شیوخ مغرب نے مسلم کو بخاری سے اصح قرار دیا،
لیکن جمہور کے نزدیک قول اول صحیح ہے۔ حافظ ابن صلاح نے علوم الحدیث میں کہا کہ صحیح مجرد میں سب سے پہلے مصنف امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہیں، ان کے بعد امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کا مقام ہے اور ان دونوں کی کتابیں اصح الکتب بعد کتاب اللہ کا درجہ رکھتی ہیں۔ صحیح بخاری کا صحیح مسلم پر راجح ہونا چند وجوہ سے ہے: (۱) رواۃ بخاری، رواۃ مسلم سے زیادہ ثقہ ہیں (۲) اسانید بخاری کا اتصال، اسانید مسلم کے اتصال سے زیادہ قوی ہے، کیونکہ امام مسلم کے نزدیک راوی اور مروی عنہ کی معاصرت اور امکان لقا کافی ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فعلیت لقا ضروری ہے (۳) صحیح بخاری میں مسائل فقہیہ کا استنباط، لطائف عجیبہ و نکات غریبہ کا وجود بکثرت پایا جاتا ہے (۴) امام بخاری کے متکمل فیہ رواۃ مسلم کے متکلم فیہ رواۃ سے بہت کم ہیں، یعنی صرف تیس راوی ایسے ہیں جو بخاری کے مخصوص متکلم فیہ رواۃ ہیں اور مسلم کے متکلم فیہ رواۃ ایک سو ساٹھ ہیں (۵) بخاری جامع ہے اور مسلم جامع نہیں، کیونکہ مسلم میں تفسیر برائے نام ہے۔ جن لوگوں نے اس برائے نام تفسیر کا اعتبار کیا، انھوں نے صحیح مسلم کو جامع قرار دیا، لیکن حق یہ ہے کہ صحیح مسلم میں تفسیر کا وجود بوجہ قلت کالعدم ہے، اس لئے وہ جامع نہیں۔
وجوہ ترجیح میں ہم نے چند خصوصیات ہی کو بیان کیا ہے، ان کے علاوہ بھی بکثرت خصوصیات ہیں۔ مثلاً بخاری میں تئیس ثلاثی حدیثوں کا پایا جانا۔ صحیح مسلم، ابوداؤد اور نسائی میں کوئی ثلاثی حدیث نہیں پائی جاتی۔ بخاری کے علاوہ ترمذی میں صرف ایک ثلاثی ہے اور ابن ماجہ میں پانچ ثلاثیات ہیں۔
اس کتاب (بخاری شریف) سے امام بخاری کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ احادیث صحیح مرفوعہ جمع ہو جائیں۔ اس کتاب کے پڑھنے والوں کو استخراج احکام و استنباط مسائل کا ملکہ حاصل ہو۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مسجد حرام میں بیٹھ کر صحیح بخاری کی تالیف شروع کردی۔ سولہ یا اٹھارہ برس میں اس کا مسودہ تیار ہوا، جس کی تبییض انھوں نے مدینہ منورہ میں منبر شریف اور قبر انور کے درمیان بیٹھ کر کی۔ امام بخاری نے تین مرتبہ اپنی صحیح کو ترتیب دیا اور تینوں مرتبہ کچھ نہ کچھ تغیر کیا، اسی وجہ سے اس کے نسخوں میں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے۔ صحیح بخاری کی تالیف اس طرح ہوئی کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ہر ترجمۃ الباب کے لئے غسل کیا اور دو نفل پڑھے، جو حدیث اس میں درج کی اس کے بارے میں اللہ تعالی سے استخارہ کیا اور اس کی صحت پر وثوق ہونے کے بعد اسے اپنی صحیح میں داخل کیا۔
کثیرین مشائخ اور علمائے ثقات نے حصول مرادات، کفایت مہمات، قضائے حاجات و دفع بلیات، کشف کربات، صحت امراض و مضائق و شدائد سے نجات پانے کے لئے صحیح بخاری کو پڑھا، ان کی مرادیں حاصل ہوئیں۔ انھوں نے اپنے مقاصد میں کامیابی پائی اور ختم بخاری شریف ان کی مرادوں کے برآنے میں تریاق مجرب ثابت ہوا۔ یہ ایسی بات ہے کہ علمائے حدیث کے نزدیک شہرت و استفاضہ کے درجہ کو پہنچی ہے۔ (دیکھئے! اشعۃ اللمعات، جلد۱، صفحہ ۱۲۔ الحطہ فی ذکر الصحاح الستہ مقدمہ تحفۃ الاحوذی، صفحہ ۱۶۸)
صحیح بخاری اور صحیح مسلم صحت، شہرت اور قبولیت کے لحاظ سے کتب حدیث کے طبقہ اولی میں شمار کی جاتی ہیں، بالخصوص صحیح بخاری ان تینوں اوصاف میں صحیح مسلم پر فوقیت رکھتی ہے۔
بخاری شریف کی شروح اس قدر کثیر ہیں کہ ان کا احصا دشوار ہے، جن میں فتح الباری علامہ ابی الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی تیرہ جلدوں میں، عمدۃ القاری علامہ بدر الدین عینی گیارہ ضخیم جلدوں میں اور ارشاد الساری مؤلفہ علامہ شہاب الدین احمد بن محمد الخطیب القسطلانی دس جلدوں میں عظیم و ضخیم شروح ہیں۔
یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ کتب حدیث میں صحیح بخاری کے بعد سب سے اصح و ارجح صحیح مسلم ہے۔ احادیث صحیحہ مرفوعہ کو بکثرت جمع کرنا اور ان کی اسانید کثیرہ بطریف متعددہ کو وارد کرنا، تاکہ صحت و قوت احادیث کی تائید مزید ہو اور ان احادیث کے حجت ہونے کو زیادہ سے زیادہ تقویت پہنچے۔ استنباط مسائل امام مسلم کا مقصد نہیں، اس لئے وہ ایک حدیث کی اسانید متعددہ کے ساتھ متن حدیث کا اعادہ نہیں کرتے۔ اسی لئے صحیح مسلم میں تکرار نہیں پائی جاتی۔ برعکس صحیح بخاری کے کہ ان کا مقصد استنباط مسائل ہے اور وہ متن حدیث کے بغیر پورا نہیں ہوسکتا، اسی لئے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جب ایک حدیث سے متعدد مسائل مستنبط کرتے ہیں تو اس کے متن کا بھی اعادہ فرماتے ہیں اور اسی استنباط مسائل کے پیش نظر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کی تبویب کی ہے اور تراجیم ابواب قائم کئے ہیں۔ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کی غرض چوں کہ استنباط مسائل نہیں، اس لئے انھوں نے اپنی کتاب میں ابواب نہیں رکھے۔
صحیح مسلم کے نسخوں میں حواشی پر جو ابواب اور ان کے عنوانات پائے جاتے ہیں، وہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے نہیں بلکہ بعض شراح صحیح مسلم نے قائم کئے ہیں۔ صحیح مسلم کی خصوصیات میں یہ بات خاص طورپر قابل ذکر ہے کہ اس کی ترتیب صحیح بخاری کی ترتیب سے احسن ہے، اس میں ہر حدیث ایسی جگہ وارد کی گئی ہے، جو اس کے لائق ہے اور اسی جگہ اس حدیث کے ان سب طریق و اسانید کو بھی امام مسلم نے جمع کردیا ہے، جو ان کے نزدیک پسندیدہ تھے۔
جن طرق میں الفاظ کا اختلاف تھا، وہاں الفاظ مختلفہ کو بیان کردیا ہے اور ساتھ ہی زیادہ ثقات کو بھی ذکر فرمادیا ہے۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے اس طریق کار سے صحیح مسلم میں حدیث تلاش کرنا بہت آسان ہو گیا ہے، نیز حدیثوں کے طرق متعددہ اور مختلف الفاظ و زیادۃ ثقات جاننے سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں، جن کی تفصیل اس مختصر مضمون میں نہیں آسکتی۔ (اقتباس)