صحبت رسول کا فیضان

 

صحبت رسولﷺ کا یہ فیضان صحابہ کرام کے ذریعہ سلاسل طریقت میں منتقل ہوتا چلا آرہا ہے اور اسی لئے بزرگوں نے پیر کی صحبت کو ضروری قرار دیا ہے ۔ بوعلی دقاقؒ فرماتے ہیں اگر درخت خودرو ہو اور اس کو کسی نے لگایا نہ ہو تو اس پر پتے تو نکلیں گے مگر وہ پھل نہ دے گا ، یہی حال اس شخص کا ہے جس کا کوئی پیر نہیں جو اس کی تربیت کرے ، اس سے بات بنے گی نہیں ۔ سلاسلِ طریقت میں پیر کی ضرورت کو اس لئے لازم قرار دیا گیا ہے کہ پیر مریدوں کی تربیت کرتا ہے ، انھیں خیر و شر سمجھاتا ہے ۔ انہیں ہدایات دیتا ہے ، ان کی رہبری و رہنمائی کرتا ہے اور اپنے مریدوں میں صحبت کا وہ فیضان منتقل کرتا ہے جو اس نے اپنے پیش رو یا پیر سے حاصل کیا ہے ۔
حضرت لقمانؒ کی وہ نصیحت بھی یاد رکھنے کے قابل ہے جو انھوں نے اپنے فرزند کو کی تھی ۔ فرمایا : علماء کی صحبت اختیار کرو اور حکماء کی باتیں سنا کرو اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ علم و حرکت کے ذریعہ مردہ دلوں کو اس طرح زندہ کردیتے ہیں ، جس طرح بارش سے خشک زمین کو۔ صحبت کے معاملے میں رسول اکرم ﷺ کی رہنمائی آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔ آپؐ سے پوچھا گیا :
یا رسول اﷲ ہم جن لوگوں کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے ہیں ان میں سب سے اچھا کون ہے ؟ فرمایا : (۱) وہ شخص جس کو دیکھنا تمہیں خدا کی یاد دلائے ۔ (۲) جس کا بولنا تمہارے علم میں اضافہ کرے ۔  (۳) جس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دہانی کرائے ۔
حضرت ذوالنون مصریؒ سے کسی نے پوچھا میں کس کی صحبت اختیار کروں ؟
فرمایا : اُس کی کہ اگر تم بیمار ہوجاؤ تو وہ تمہاری عیادت کرے اور اگر تم کوئی گناہ کر بیٹھو تو وہ تمہیں معاف کردے ۔ اس سے حضرت ذوالنونؒ کی مراد اﷲ تعالیٰ کی صحبت تھی ۔ حضرت ذوالنونؒ ہی ایک موقع پر صحبت کے آداب بتاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : اگر اﷲ کی صحبت میں رہو تو اس کے اوامر ونواہی میں اس کی موافقت کرو ۔ اور اگر مخلوق کی صحبت میں رہو تو ان کی خیرخواہی کرو ۔ اور اگر نفس کی صحبت میں رہو تو اس کی مخالفت کرو۔ اور اگر شیطان کی صحبت میں رہو تو اس سے عداوت کرو ۔ اسی طرح حضرت عثمان الحیری آداب صحبت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
۱۔ اﷲ تعالیٰ کی صحبت حضوریٔ قلب ، شائستگی اور حُسنِ ادب سے کرنی چاہئے ۔
۲۔ حضور ﷺ کی صحبت ، آپؐ کی عظمت کے احساس اور اتباع سنت سے کرنی چاہئے ۔
۳۔ اولیاء اﷲ کی صحبت ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق احترام سے کرنی چاہئے ۔
۴۔ برادرانِ اسلام کی صحبت خندہ پیشانی سے کرنی چاہئے بشرطیکہ وہ گناہوں میں مبتلا نہ ہو۔
۵۔ اور جاہلوں کی صحبت اُن پر شفقت و مہربانی اور ان کے حق میں دعا کے ساتھ کرنی چاہئے ۔
حضرت عثمان الحیری کی یہ تلقین اس اصول پر مبنی ہے کہ صحبت کی تین قسمیں ہیں :
(۱) بڑے کی صحبت (۲) چھوٹے کی صحبت (۳) برابر والے کی صحبت ۔
بڑے اور بزرگ کی صحبت ، اصل میں صحبت نہیں ، خدمت ہوتی ہے ، کسی نے منصور بن خلف مغربی سے پوچھا : آپ کتنا عرصہ ابوعثمان مغربی کی صحبت میں رہے ؟ آپ نے ناراضی سے سائل کی طرف دیکھا اور فرمایا : میں تو ان کی صحبت میں نہیں رہا ، البتہ میں ان کی خدمت میں رہا ہوں ۔ میں ان کا خادم ہوں ۔ یہ بھی سعادت مندی کا ایک اندازہ ہے کہ بزرگوں کی صحبت ، اپنے آپ کو ان کا خادم سمجھ کر اختیار کی جائے اور مکمل طورپر ان کا ادب ملحوظ رکھا جائے ۔ امام ابوالقاسم قشیریؒ فرماتے ہیں کہ میں اپنے پیر حضرت بو علی دقاق رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں جب بھی حاضر ہوتا تو اس دن روزہ رکھ کر حاضر ہوتا تھا ۔
چھوٹے کی صحبت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ کیا جائے ۔ یہ دونوں باتیں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم  کے اس ارشاد پر مبنی ہیں کہ آپؐ نے فرمایا : ’’جو چھوٹے پر شفقت نہ کرے اور بڑے کااحترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ‘‘۔
اور اپنے ہم پلہ اور ہم مرتبہ کی صحبت کا تقاضہ ، ایثار و فتوت ہے ۔ ایثار کا مفہوم ہے دوسرے کو اپنے آپ پر ترجیح دینا اور فتوت کے معنی ہیں جواں مردی ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہمت اور حوصلے سے کام لے کر دوسرے کے کام آنا ۔