ابوزاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے بہت ہی کم طاقت، کم تحمل، بے صبر اور حریص واقع ہوا ہے، جس کی وجہ سے انسانی کردار بے شمار خامیوں اور خرابیوں کا شکار اور ہوائے نفس کا اسیر ہو جاتا ہے۔ انسان کی اسی سرشت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے خالق کونین ارشاد فرماتا ہے: ’’بے شک انسان بہت لالچی پیدا ہوا ہے، جب اسے تکلیف پہنچے تو سخت گھبرا جانے والا ہے اور جب اسے دولت ملے تو حد درجہ بخیل، بجز ان نمازیوں کے جو اپنی نماز پر پابندی کرتے ہیں‘‘ (سورۃ المعارج) اس آیت پاک میں بیان کیا جا رہا ہے کہ جو لوگ خشوع و خضوع اور خلوص و للہیت کے ساتھ نماز قائم کرتے ہوئے اپنے ظاہر و باطن کو مزکیٰ و مصفیٰ بنا لیتے ہیں، ان کے کردار میں اتنی تطہیر و پاکیزگی آجاتی ہے کہ وہ نہ مصائب و آلام سے گھبراکر جزع و فزع اور بیتابی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور نہ انعامات کی بارش ہونے پر غرور و تکبر میں مبتلا ہوکر دوسروں سے دریغ کرتے ہیں، بلکہ ہر حال میں ان کا وجود سارے معاشرہ کے لئے باعث برکت بن جاتا ہے۔ایک مقام پر فرمایا گیا: ’’مگر انسان (بھی عجب شے ہے) کہ جب آزماتا ہے اسے اس کا رب یعنی اس کو عزت دیتا ہے اور اس پر انعام فرماتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے عزت بخشی اور جب اس کو (یوں) آزماتا ہے کہ اس پر روزی تنگ کردیتا ہے تو کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا‘‘ (سورۃ الفجر۔۱۵،۱۶)
قرآن حکیم کا جب ہم بہ نظر غائر مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کلام مجید میں متعدد مقامات پر تشویق و بشارت کے ساتھ ہی تہدید و انداز کی بات کہی گئی ہے، اسی لئے یہ مبارک و مسعود ہستیاں نہ تنگدستی و درویشی کے عالم میں کسب معاش کے لئے حرام ذرائع کا استعمال کرتی ہیں اور نہ ہی خوشحالی میں عیش و عشرت کا شکار ہوتی ہیں، بلکہ ہر دو حالتوں میں احکاماتِ الہٰی اور سنتِ نبویﷺ کی پیروی کرتی ہیں۔ چوں کہ اہل ایمان اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں کہ رزق کی وہ فراخی و آسودگی جس کا شکر نہ کیا جائے اور وہ معاشی بدحالی جس پر صبر نہ کیا جائے، آزمائش میں انسان کے بُری طرح ناکام ہو جانے کی علامت ہے۔ چنانچہ مصیبتوں کا مقابلہ صبر اور نعائم الہٰیہ کی حفاظت شکر سے کرنا ہمیشہ اہل ایمان کا شیوہ رہا ہے، جس کا بین ثبوت واقعۂ کربلا ہے۔رب کائنات خلقتِ موت و حیات کے ہدف سے دنیائے انسانیت کو واقف کرواتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ’’جس نے پیدا کیا ہے موت اور زندگی کو، تاکہ وہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے‘‘ (سورۃ الملک۔۲) اس آیت پاک میں بیان کیا جا رہا ہے کہ دنیوی حیات مصائب و حوادث، رنج و غم اور ابتلاء و آزمائش کا میدان ہے اور جہاں آزمائشوں کی کثرت ہوتی ہے، وہاں لغزشوں کا امکان بھی قوی ہوتا ہے۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ لغزشوں کی کثرت سے انسان مایوسی اور ناامیدی کے بھنور میں پھنس جاتا ہے، جس سے باہر نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے امید اور امید ہی کا دوسرا نام صبر ہے۔ اسی لئے صبر کو کشائش کی کلید (کنجی) کہتے ہیں۔ قرآن حکیم کی آیات سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عنایات سے زیادہ محرومیوں کے ذریعہ آزماتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’اور ہم ضرور آزمائیں گے تمھیں کسی ایک چیز کے ساتھ یعنی خوف اور بھوک اور کمی کرنے سے (تمہارے) مالوں اور جانوں اور پھلوں میں‘‘۔ (سورۃ البقرہ۔۱۵۵)
امتحان کے ان کٹھن مراحل کو وہی شخص کامیابی و کامرانی سے طے کرسکتا ہے، جو پیکر صبرورضا ہو۔ چوں کہ جو شخص صبر کا دامن چھوڑ دیتا ہے اور نافرمانی کو اپنا شعار بنا لیتا ہے تو اس کی زندگی ہزارہا تلخیوں و نامرادیوں سے بھر جاتی ہے اور اس کی مصیبتوں میں مزید اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ قدرتی آفات اور بلاؤں سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات سے چھٹکارا پانے کا آسان طریقہ صبر اور نماز ہے، چنانچہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! مدد طلب کیا کرو صبر اور نماز (کے ذریعہ) سے، بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ (سورۃ البقرہ۔۱۵۳)
جس طرح صبر انسان کو پُرخطر حالات میں پامردی اور استقلال کے ساتھ ڈٹے رہنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے، وہیں نماز انسان کو ایک جانب برائیوں اور بے حیائیوں سے روکتی ہے اور دوسری طرف انسان کو مصیبتوں سے نجات دِلاتی ہے۔ اسی لئے شریعتِ مصطفویﷺ میں مصیبت کے وقت صلوۃ الاستسقاء، صلوۃ الحاجات، صلوۃ الاستخارہ، صلوۃ الکسوف، صلوۃ الخسوف وغیرہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔اب تبلیغ اسلام کی ذمہ داری غلامانِ مصطفیﷺ کے تفویض کی گئی ہے، لہذا ہمیں اپنے کردار کو صفت صبر سے متصف کرنا چاہئے۔ اگر ہم دَور حاضر کی ذلت آمیز زندگی سے نکل کر دنیا کی پیشوائی، رہنمائی اور امامت کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں صبر اور نماز کا عادی بننا ہوگا اور یہی درس ہمیں واقعۂ کربلا سے ملتا ہے کہ دنیا ومافیہا کی ہر نعمت صبر اور نماز پر قربان کی جاسکتی ہے، لیکن کسی دُنیوی نعمت کے لئے صبر اور نماز کو نہیں چھوڑا جاسکتا۔