سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر کسی بیت المال سے غرباء کی امداد، شادی اور تجہیز وتکفین میں اعانت کے علاوہ بلاسودی قرض دیاجاتاہے۔ ایک شخص نے سونے کی ایک چیز رکھ کر قرض حاصل کیا ۔ مرہونہ شیٔ بیت المال کے خازن کے پاس محفوظ کی گئی۔ خازن کے کامل حفاظت کرنے پر بھی وہ شیٔ خازن کے پاس سے چوری ہوگئی خازن کی نیت پر شبہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔
ایسی صورت میں شیٔ مرہونہ کی ذمہ داری خازن پر رہے گی یا بیت المال پر؟ بینواتؤجروا
جواب : صورت مسئول عنہا میں بیت المال کی تمام مرہونہ اشیاء خازن کے پاس ہی محفوظ رہتی ہیں اور اس کی کافی حفاظت کرنے پر بھی وہ شیٔ چوری ہوگئی ہے، یعنی خازن نے نگرانی میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے اور شیٔ مرہونہ کی قیمت قرض سے زائد ہے تو رہن رکھوانے والے (راہن) کے ذمہ سے قرض ساقط ہوجائے گا۔ اور مرتھن (رہن رکھنے والا) زیادتی کا ضامن نہ ہوگا۔تنقیح حامدیہ جلد ۲ص ۲۲۹ میں ہے : (سئل) فیما اذا سرق الرھن من عند المرتھن بلاتعدد منہ ولاتقصیر فی حفظہ وکانت قیمتہ تزید علی الدین فھل یسقط الدین ولا یضمن المرتھن الزیادۃ (الجواب) نعم کما فی المتون۔ اورعالمگیری جلد ۵ ص ۴۶۵ کتاب الرھن میں ہے: اعلم بان عین الرھن امانۃ فی ید المرتھن بمنزلۃ الودیعۃ، ففی کل موضع لو فعل المودع بالودیعۃ لا یغرم فکذلک اذا فعل المرتھن ذلک بالرھن لا یغرم الا ان الودیعۃ اذا ھلکت لا یغرم شیئا والرھن اذا ھلک سقط الدین، وفی کل موضع لوفعل المودع بالودیعۃ یغرم فکذلک المرتھن اذا فعل ذلک بالرھن۔
میت کو کس طرح رکھنا چاہئے
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جب کسی گھرمیں انتقال ہوجاتا ہے تو افراد خاندان کے چند لوگ مختلف باتوں میںاختلاف کرتے نظر آتے ہیں اور عموماً میت کو لٹانے ، میت کے بال میں کنگھی کرنے کے بارے میں اختلاف رائے ہوتاہے تو اس سلسلہ میں دو تین باتیں حل طلب ہیں۔ براہ کرم رہنمائی فرمائے۔میت کو شرعاً کیسا لٹانا چاہئے، میت کوقبلہ کی سمت پیر کر کے لٹائیں یا جنوب کی جانب، شرعا کیا حکم ہے ۔ میت کے بالوں کو ترشوانا یا اس میں کنگھی کرنا و ناخن ترشوانا کیسا ہے ؟ بینواتؤجروا
جواب : میت کو بوقت غسل یا قبل غسل لٹانے کے متعلق چونکہ کوئی صراحت احادیث میں نہیں پائی گئی اس لئے یہ مسئلہ فقہاء و علماء کے درمیان استدلالی ہوگیا ہے، بعض فقہاء نے میت کو بیمار پر (ایسا بیمار جو بوقت نماز قیام و قعود پر قادر نہ ہو) قیاس کر کے یہ لکھا ہے کہ میت کو ایسا چت لٹا یاجائے کہ اس کے پیر قبلہ کی جانب ہوں اور سر کے نیچے تکیہ و غیرہ رکھ کر اس قدر چہرے کو بلند کیا جائے کہ اگر میت کو ا ٹھایا جائے تو اس کا چہرہ قبلہ کی جانب ہوجائے لیکن یہ استدلال (بیمار پر میت کو قیاس) صغیف ہے، بعض فقہاء نے مکان و مقام کا اعتبار کرتے ہوئے جیسی سہولت ہو، میت کو لٹانے کی اجازت دی ہے۔ اکثر فقہاء نے میت کو قبر پر قیاس کر کے یہ حکم دیا ہے کہ میت کو ایسا لٹایا جائے ، جیسا قبر میں رکھا جاتا ہے یا بوقت نمازِ جنازہ میت کو رکھا جاتا ہے ، یہ قیاس اقرب الی الفہم و العقل ہے کہ اس میں قبلہ و کعبہ کے آداب بھی ملحوظ رہتے ہیں۔ قبلہ کی جانب پیر دراز کرنا خلاف ادب ہے جیسا کہ فتاوی عالمگیری جلد ۵ ص : ۲۱۹ میں ہے: یکرہ مدالرجلین الی الکعبۃ فی النوم و غیرہ عمدا۔ اور فتاوی تاتار خانیہ کتاب صلاۃ الخبائز ص : ۱۳۳ ہے: یوضع علی تخت … کما یوضع فی القبر۔ یعنی میت کو تخت پر ایسا لٹایا جائے جیسا کہ قبر میں لٹایا جاتا ہے ۔ میت کے بال داڑھی و سر میں کنگھی کرنا ناخن ترشوانا منع ہے جیسا کہ قدوری باب الجنائز میں ہے : ولا یسرح شعرالمیت ولا لحیتہ ولا یقص ظفرہ ولا یقص شعرہ۔