شیوسینا ۔ بی جے پی اتحاد

مرکز کی حکمراں پارٹی کی حلیف جماعتیں ہی خود سیاست کی قبر کھودینے پر آمادہ و مصر ہوں اور حلیف پر لعن طعن و تنقیدیں کر کے اپنی اب تک کی روش پر افسوس کرتے ہوئے اتحاد توڑنے کا فخریہ اعلان کریں تو انہیں رائے دہندوں کی رائے بھی تبدیل کردینے کے مشن میں کامیابی سے بھلا کون روک سکتا ہے ۔ بی جے پی کی دیرینہ حلیف پارٹی شیوسینا نے ایک قرار داد منظور کرتے ہوئے آنے والے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ شیوسینا کے ایم پی سنجے راوت کا کہنا قابل غور ہے کہ گذشتہ 3 سال سے پارٹی کی توہین کرنے میں بی جے پی نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ بی جے پی کو سیاسی قوت بخشنے میں شیوسینا نے اہم رول ادا کیا تھا ۔ شیوسینا کے سابق صدر بال ٹھاکرے نے بی جے پی کو لے کر ہندوتوا کا نعرہ بلند کر کے ملک کی فضا کو فرقہ وارانہ طور پر کشیدہ بنادیا تھا ۔ اب شیوسینا کے نئے سربراہ کی حیثیت سے دوبارہ منتخب ہونے والے اودھا ٹھاکرے نے وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر نیتن گڈکری کی کارکردگی پر کئی سوالیہ نشان لگائے ہیں ۔ نیتن گڈکری نے حال ہی میں ہندوستانی بحریہ پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے ممبئی میں ترقیاتی پراجکٹس کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں ۔ شیوسینا کو نیتن گڈکری کا یہ ریمارک پسند نہیں آیا ۔ بلا شبہ بحریہ بھی ہماری فوج کا ایک اہم حصہ ہے ۔ فوج کے 3 خدمات فوج ، فضائیہ اور بحریہ کو ملک کی طاقت مانا جاتا ہے مگر نیتن گڈکری نے بحریہ کے خلاف اپنا غصہ نکال کر شیوسینا کو چراغ پا کردیا ۔ شیوسینا کے صدر اودھا ٹھاکرے نے یہ بات درست کہی کہ ملک کی اعلیٰ سیاسی قیادت میں سوچنے کی صلاحیت مفقود ہوچکی ہے ۔ عوام میں عام رائے یہی ہے کہ ان دنوں وہی پارٹیاں کامیاب ہوتی ہیں جن میں ای وی ایم کے ذریعہ دھوکہ دینے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔ شیوسینا نے مودی کے حوالے سے یہ ریمارک بھی تلخ کیا کہ عوام سوچتے ہیں کہ ان کے پاس ایک طاقتور لیڈر ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے پاس ایک ایسا لیڈر ہے جو احمدآباد میں بیرونی لیڈروں کے ساتھ پتنگ بازی میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ سوال یہ بھی ہے کہ آخر ان دورہ کرنے والے بیرونی قائدین کو گجرات کیوں لے جایا جارہا ہے ۔ کشمیر یا دیگر ریاستوں کو کیوں نہیں لیجایا گیا ۔ بی جے پی اور اس کی قیادت نے ملک کے عوام کو اچھے دن کے خواب دکھا کر بے وقوف بنایا تھا ۔ اب پٹرول کی قیمت بھی آسمان کو چھورہی ہے تو یہ کوئی نہیں جانتا کہ آنے والے دن پسماندہ ہوں گے یا خوشحال ہوں گے ۔ نوجوانوں کے لیے کوئی روزگار نہیں ہے ۔ شیوسینا نے ہندو ووٹوں کو مضبوط و متحد کرنے کے لیے ہی بی جے پی کا ساتھ دیا تھا اب اس نے بی جے پی کی پالیسیوں پر ناراضگی ظاہر کی ہے تو اس نے وقت سے پہلے عوام کی نبض ٹٹول کر اپنا راستہ چن لیا ہے ۔ لیکن بی جے پی کی خرابیوں اور اچھائیوں دونوں میں شیوسینا برابر کی شامل رہی ہے ۔ اب اس نے خود کو اس پارٹی کی خرابیوں سے دور کرنے کی کوشش کی ہے تو عوام سب دیکھ رہے ہیں اور ان کا فیصلہ ہی شیوسنا اور بی جے پی کی مستقبل کی سیاسی قسمت کا تعاقب کرتا رہے گا ۔ شیوسینا کو افسوس اس بات کا ہے کہ بی جے پی کو اعلیٰ مقام تک پہونچانے میں مدد کرنے کے باوجود اس پارٹی کو اپنی محنت کا پھل نہ ملے تو وہ عوام میں پذیرائی سے محرومی کے احساس سے بھی دوچار ہوچکی ہے ۔ لہذا شیوسینا کو اپنا راستہ علحدہ کرنے کی فکر لاحق ہوگئی لیکن عین انتخابات تک اس کے موقف میں تبدیلی آئے گی یا وہ اپنا سیاسی اعتبار برقرار رکھنے کی کوشش کرے گی یہ وقت ہی بتائے گا ۔ سیاسی پارٹیوں کا کوئی موقف مستقل نہیں ہوتا ۔ سیاستدانوں کو کسی بھی طرح سے عوام کے مفادات کا خیال نہیں رہتا وہ نہ صرف اپنے مفاد کے سامنے ہاتھ باندھ کر سرنگوں ہوتے ہیں بلکہ وقت آنے پر خود سپرد بھی ہوجاتے ہیں اور اپنے ووٹرس کے حقوق و مفادات کا سودا بھی کرلیتے ہیں ۔ شیوسینا اور بی جے پی کا اتحاد صرف ایک وقتی تعطل کا شکار سمجھا جائے گا ۔ بعد ازاں درپردہ یا برسرعام اتحاد کے احیاء کا بھی اعلان ہوسکتا ہے ۔ لہذا ان پارٹیوں کے رائے دہندوں کو ہی سمجھنا چاہئے کہ یہ پارٹیاں انہیں کس طرح احمق سمجھ کر اپنے سیاسی فیصلے کرتے ہیں ۔