شیوسینا کا شرانگیز مطالبہ

پال کر طوطے گھر کی بیٹھک میں
اپنی بولی سکھارہے ہیں لوگ
شیوسینا کا شرانگیز مطالبہ
شیوسینا کی مسلمانوں کے خلاف شر انگیزیاں اور اشتعال انگیز بیانات کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ پارٹی کے بانی بال ٹھاکرے نے بھی زندگی بھر مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کو اپنی شیوہ بنالیا تھا اور اسی زہر افشانی کے ذریعہ انہوں نے اپنی سیاسی شناخت بنائی اور مہاراشٹرا کی سیاست پر اثر انداز ہونے میں کامیاب ہوئے تھے ۔ حالانکہ انہیں مہاراشٹرا میں مقبولیت اور سیاسی مقام دلانے میں کانگریس اور دوسری جماعتوں کے قائدین نے بھی اپنا رول ادا کیا تھا لیکن بعد میں بال ٹھاکرے اور ان کی جماعت شیوسینا ان ہی جماعتوں اور قائدین کیلئے گلے کا پھندا بن گئے تھے ۔ اب بال ٹھاکرے کی موت کے بعد ان کے فرزند ادھو ٹھاکرے بھی اسی روش پر چل نکلے ہیں اور انہوں نے اپنی سیاسی ساکھ کو مستحکم اور مضبوط کرنے کیلئے مسلم دشمنی کو مزید آگے بڑھانے کا طریقہ اختیار کیا ہے ۔ حالانکہ اس طریقہ کار سے انہیں مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات میں کوئی کامیابی نہیں مل سکی اور بی جے پی سے مخالفت کے باوجود اس پارٹی کو اقتدار میں حصہ داری کیلئے بی جے پی کا ساتھ دینا پڑ رہا ہے ۔اب بھی حالانکہ وہ بی جے پی سے مطمئن نہیں ہیں لیکن اس سے زیادہ توجہ مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی پر ہی مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ شیوسینا نے گذشتہ دنوں دستور ہند سے سکیولر اور سوشلزم جیسے الفاظ کو حذف کرنے کا مطالبہ کرنے کے بعد اب ملک بھر میں مسلمانوں کو رائے دہی کے حق سے محروم کرنے کا شر انگیز مطالبہ کیا ہے ۔ پارٹی کا یہ مطالبہ اس کی مسلم دشمن ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے اور اس سے وہ سیاسی فائدہ بھی حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ دستور ہند سے کھلواڑ کے بیانات ویسے بھی عام ہوتے جا رہے ہیں اور ہر گوشے سے مسلم دشمنی کی آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ ایسے میں شیوسینا کی جانب سے مسلمانوں کو رائے دہی کے حق سے محروم کرنے کا مطالبہ دستور سے کھلواڑ کی ایک اور کوشش ہے کیونکہ اس ملک میںمسلمان دوسرے درجہ کے شہری نہیں ہیں ۔ وہ دیگر ابنائے وطن کے برابر حقوق رکھتے ہیں۔ انہیں ووٹ دینے کے حق سے محروم کرنے کی بات در اصل اس ملک کے تانے بانے بکھیرنے کی کوشش ہے اور اس کے خلاف ہر صحیح الفکر اور سکیولر ذہن رکھنے والے افراد اور تنظیموں و طاقتوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔
شیوسینا نے ماضی میں مسلمانوں کو کئی طرح سے اشتعال دلانے کی کوشش کی تھی ۔ بال ٹھاکرے زندگی بھر یہ کہتے رہے کہ مسلمانوں کو پاکستان چلے جانا چاہئے ۔ اب بھی کئی گوشے اسی خیال کو پیش کرنے سے گریز نہیں کرتے لیکن اس طرح کے مطالبات کرنے والوں اور متعصب ذہنیت رکھنے والوں کیلئے ہندوستان کو جنت نظیر بنانے میں مسلمانوں کی رول کو ذہن میں رکھنا چاہئے ۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں مسلمانوں نے دیگر ابنائے وطن کے برابر بلکہ ان سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اس ملک کو اپنا لہو دیا ہے ۔ صدیوں تک اس ملک پر حکمرانی کے ذریعہ سماجی ہم آہنگی اور مساوات کو فروغ دینے والے مسلمان آج اس ملک میں انتہائی ابتر صورتحال میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ ان میں اکثریت کی گذر بسر ٹھیلہ بنڈیاں ڈھکیلنے اور معمولی سے کاروبار پر باقی رہ گیا ہے ۔ سرکاری ملازمتوں سے انہیں منظم اور منصوبہ بند انداز میں بتدریج محروم کردیا گیا ہے ۔ تعلیم کے شعبہ میں انہیں انتہائی پسماندگی کا شکار کردیا گیا ہے اور معاشی میدان میں ان کا وجود ہی ختم کرنے کی کوششیں بھی کی گئی تھیں لیکن اس کے باوجود مسلمانوں نے کبھی اس ملک کے مفادات کے خلاف کوئی کام نہیں کیا ہے ۔ شیوسینا یا اس کی قبیل کی تنظیموں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ مسلمان اس ملک میں پورے حق سے رہیں گے اور انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ ایسی کوشش کرنے والے خود ذلیل ہونگے ۔
جس وقت سے نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت نے مرکز میں اقتدار سنبھالاہے اس وقت سے اس طرح کی اشتعال انگیزیاں عام ہوگئی ہیں۔ حکومت حالانکہ ہر مذہب کے ماننے والوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کا بارہا ادعا کرتی ہے لیکن اس نے عملی میدان میں کچھ بھی نہیں کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے مطالبات کرنے والوں کی ہمت بڑھتی جا رہی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شیوسینا ہو یا کوئی اور جو مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی بات کرتے ہیں یا ان کے حق رائے دہی کو ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے ان کے خلاف سخت ترین کارروائیاں کی جائیں تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہوسکے ۔ اس کے علاوہ ملک کے تانے بانے کو بکھیرنے سے بچانے کیلئے اور ہندوستان کی کثرت میں وحدت کی روایات کا تحفظ اور ان کی پاسداری کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ایسے فرقہ پرست عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے ۔