عکس خیال ہوتا ہے انداز گفتگو
انساں کو جانچ لیتے ہیں طرز کلام سے
شیوسینا ‘ ذہنی دیوالیہ پن کا شکار
مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات میں بی جے پی سے پیچھے رہ جانے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ شیوسینا ذہنی دیوالیہ پن کا شکار ہوگئی ہے ۔ کسی وجہ یا کسی وجہ کے بغیر لب کشائی کو اس نے اپنا معمول بنا لیا ہے ۔ پارٹی نے ایسی روش اختیار کر رکھی ہے جس سے خود اس کا وجود بے اثر ہونے لگا ہے ۔ اپنے ترجمان اخبار سامنا کے ذریعہ خود اپنی اقتدار کی حلیف جماعت بی جے پی اور اس کی مرکزی حکومت کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنانے کا اس نے سلسلہ شروع کیا تھا ۔ یہ شیوسینا کا دوہرا معیار ہے یا پھر وہ مہاراشٹرا کے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ مہاراشٹرا کی فرنویس حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اس کے کام کاج پر سوال کیا جا رہا ہے لیکن اسی حکومت کو استحکام بھی اسی شیوسینا نے بخشا ہے اور اس حکومت کے اقتدار میں وہ بھی حصہ دار ہے ۔ اس کے اپنے ارکان اسمبلی ریاستی وزارت میںاپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ اپنے قائدین کی وزارت میں شمولیت اور اقتدار کے مزے لوٹنے کے باوجود شیوسینا نے ریاستی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے ۔ اسی طرح مرکز کی نریندر مودی حکومت پر بھی وقتا فوقتا تنقیدیں اور طنز کا سلسلہ جا ری ہے ۔ حقیقت ہے کہ مرکزی وزارت میں بھی شیوسینا کے نمائندے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ مہاراشٹرا اور مرکزی حکومتوں میں وزارتوں کے مزے لوٹنے کا سلسلہ بند نہیں کیا جا رہا ہے اور ساتھ ہی تنقیدیں بھی کی جا رہی ہیں۔ یہ شیوسینا کا دوہرا معیار اور اس کے ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت ہے ۔ پارٹی نے اب بی جے پی حکومتوں پر تنقیدوں کا سلسلہ روک کر مسلمانوں ‘ مدارس اور اردو و عربی زبانوں کو نشانہ بنایا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ دینی مدارس میں اردو اور عربی کی تعلیم پر روک لگائی جانی چاہئے اور ان مدارس میں ہندی اور انگریزی کا رواج ہونا چاہئے ۔ حالانکہ یہ تجویز بجائے خود مضحکہ خیز ہے اور اس پر کوئی کان دھرنے والا نہیں ہے لیکن اس سے شیوسینا کے ذہنی دیوالیہ پن کا ایک اور ثبوت ملتا ہے ۔ یہ شیوسینا کی اقلیت دشمنی اور مذہبی عدم روادای کی ایک واضح مثال ہے ۔ اس طرح کے مطالبات او ر تحریروں کے ذریعہ پارٹی خود اپنا مذاق بنا رہی ہے اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے خود اس بات کا احساس بھی نہیں ہو پا رہا ہے ۔
شیوسینا کا یہ مطالبہ بھی اس کی ذہنی کیفیت کو اجاگر کرتا ہے ۔ ریاست میں اقتدار میں دوسرے درجہ کا مقام ملنے پر پارٹی اوراس کے قائدین بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں۔ پارٹی اور اس کی قیادت ریاست میں اپنے وجود کا احساس دلاتے رہنے پر مجبور نظر آتی ہے ۔ شیوسینا کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ ریاست میں بی جے پی نے ‘ جو کبھی اسکی جونئیر رفیق ہوا کرتی تھی ‘ اسے پیچھے چھوڑ کر خود اقتدار حاصل کرلیا ہے ۔ شیوسینا کو یہ خام خیالی رہی تھی کہ ریاست میں زعفرانی اتحاد کی قیادت اسی کے ہاتھ آسکتی ہے اور بی جے پی کو سبقت حاصل نہیں ہوگی ۔ تاہم شیوسینا کا یہ خیال یکسر غلط ثابت ہوا اور اس نے ریاست کے اسمبلی انتخابات میں عوام کی جانب سے مسترد کردئے جانے کا کچھ زیادہ ہی اثر لے لیا ہے ۔ عوام کی جانب سے مسترد کئے جانے کے بعد پارٹی کو یہ احساس ہوا کہ دھیرے دھیرے اس کی شناخت اور حیثیت ختم ہوسکتی ہے ۔ اسی احساس کے تحت پارٹی نے اپنے وجود کا احساس دلانے کی کوششیں شروع کی تھیں لیکن اس کی یہ حکمت عملی اور کوششیں خود پارٹی کیلئے مذاق کا موضوع بنتی جا رہی ہیں۔اس کے دوہرے معیارات عوام کے سامنے آتے جا رہے ہیں اور اس حکمت عملی سے پارٹی کو فائدہ ہونے کی بجائے الٹا نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اس کی یہ حکمت عملی پارٹی کے مستقبل کیلئے خطرناک ہوسکتی ہے ۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ شیوسینا کی قیادت یا اس کے اطراف کے حاشیہ برداروں کو اس کا احساس تک نہیں ہو رہا ہے اور وہ اپنی ہی دھن میں مگن نظر آتے ہیں۔
اقتدار میں حصہ بھی برقرار رکھنے اور پھر اقتدار کی شریک جماعت پر تنقیدیں بھی کرنے سے پارٹی کی ساکھ پر بھی منفی اثر ہوا ہے ۔ شائد اسی بات کو محسوس کرتے ہوئے پارٹی نے ایک بار پھر فرقہ واریت کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اسی لئے یہ ناقابل قبول اور مضحکہ خیز مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ دینی مدارس میں اردو اور عربی تعلیم کا سلسلہ بند ہونا چاہئے اور یہاں ہندی اور انگریزی کی تعلیم دی جانی چاہئے ۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ دینی مدارس میں کیا کچھ ہونا چاہئے یا کیا نہیںہونا چاہئے اس کا فیصلہ کرنے کا یا اس میں مداخلت کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے ۔ دستور ہند میں اقلیتوں کو اپنی تعلیمات کے تعلق سے فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے ۔ شیوسینا کو اپنی اوچھی سیاست کی کوششیں ترک کرنی چاہئیں اور اسے یہ حقیقت بھی تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کی یہ کوششیں خود پارٹی کیلئے اور اس کے مفادات کیلئے سودمند ثابت نہیں ہوسکتیں۔