رنجش ہی سہی دِل ہی دُکھانے کے لئے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ
شیوسینا۔ بی جے پی‘ پھر دُوریاں
سیاسی ڈگر پر پچیس سال تک ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتے ہوئے سفر کرنے کے بعد دو قدیم حلیف جماعتوں شیوسینا۔ بی جے پی میں دُوریاں ایسا لگتا ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہی ہیں۔ مہاراشٹرا میں حال میں ہوئے اسمبلی انتخابات سے قبل سیاسی بالادستی کیلئے جو اختلافات پیدا ہوئے تھے انکی وجہ سے دونوں جماعتوں کے مابین کافی دوریاں پیدا ہوگئی ہیں۔ انتخابات سے قبل دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے پر سخت تنقیدیں کرنے سے بھی گریز نہیں کیا تھا اور دونوں نے تنہا انتخابات میں مقابلہ کیا۔ بی جے پی کو مہاراشٹر ااسمبلی انتخابات میں ریاست میں سب سے بڑی واحد جماعت کا موقف حاصل ہوا اور وہاں دیویندر فرنویس کی قیادت میں بی جے پی نے حکومت بھی قائم کرلی ہے۔ حکومت کو اب اپنی اکثریت ایوان اسمبلی میں ثابت کرنی ہے۔ اس سے قبل یہ کوششیں ہو رہی تھیں کہ شیوسینا کی تائید حاصل کی جائے۔ انتخابات میں تنہا مقابلہ کے بعد دونوں جماعتوں نے انتخابات کے بعد دوبارہ اپنے اتحاد کو بحال کرنے کی کوشش کی تھی۔ بی جے پی کو شیوسینا کو منانا اسلئے ضروری تھا کہ اسمبلی میں اس کی تائید حاصل کی جائے۔ حالانکہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی بی جے پی حکومت کو غیر مشروط تائید فراہم کرنے کا اعلان کرچکی ہے۔ بی جے پی چاہتی ہے تھی کہ این سی پی کی باضابطہ تائید حاصل کرنے سے گریز کیا جائے کیونکہ بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی انتخابی مہم کے دوران این سی پی کو کرپشن والی جماعت قرار دے چکے تھے۔ تاہم شیوسینا کے ساتھ بھی بی جے پی نے بالادستی اختیار کرنی چاہی ہے جس کو سینا کی قیادت تسلیم کرنے کو تیار نظر نہیں آتی۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ چاہتے ہیں کہ حلیف جماعتوں کی وقت ضرورت تائید تو حاصل کی جائے لیکن انہیں کبھی بھی حکومت کیلئے یا پارٹی کیلئے کوئی مسئلہ بننے کے قابل نہ چھوڑا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ شیوسینا سے دوستی کی بات تو کی جا رہی تھی لیکن اس کے ساتھ ایک چھوٹی اور غیر اہم جماعت کے طرز پر رویہ اختیارکیا گیا تھا اور شیوسینا اس رویہ کو تسلیم نہیں کر پا رہی ہے۔ حالانکہ دونوں جماعتوں نے یہ اشارہ دیا تھا کہ دونوں کے اختلافات کو جلد ختم کرلیا جائیگا لیکن آج مودی حکومت میں توسیع کے وقت یہ اختلافات مزید کھل کر سامنے آگئے۔ توسیع کے موقع پر کابینہ میں شمولیت کیلئے انیل دیسائی کا نام دیا گیا تھا لیکن لمحہ آخر میں دیسائی کو بحیثیت وزیر حلف لینے سے روکد یا گیا۔ دیسائی حلف لینے ممبئی سے دہلی پہونچے تھے لیکن وہ ائرپورٹ سے ہی دوبارہ ممبئی واپس ہوگئے۔ مہاراشٹرا کی سطح پر اختلافات کو حل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے اس کے اثرات مرکزی سطح پر بھی پڑ رہے ہیں۔ یہ اشارہ بھی مل رہا ہے کہ پہلے سے مرکزی کابینہ میں شامل شیوسینا لیڈر اننت گیتے کو بھی کابینہ سے علیحدہ کرلیا جائیگا اور مہاراشٹرا میں بھی شیوسینا ‘ فرنویس حکومت میں شامل ہونے کی بجائے اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دیگی۔ یہ صورتحال ریاست میں شرد پوار کی قیادت والی این سی پی کو بی جے پی سے قربت بڑھانے کا موقع اور راستہ دونوں فراہم کر رہی ہے اور شرد پوار اس کیلئے پہلے سے تیار بیٹھے ہیں۔ شرد پوار کا کہنا ہے کہ وہ معلق اسمبلی کی وجہ سے ریاست میں استحکام کو یقینی بنانے بی جے پی حکومت کی تائید کیلئے تیار ہیں۔ تاہم ان کی سیاسی مجبوریوں اور مصلحتوں سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اپوزیشن میں بیٹھنے اور حکومت کی مخالفت کی وجہ سے انہیں اور ان کی جماعت کے قائدین کو کئی مقدمات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جن کے خلاف کرپشن کے الزامات عائد ہیں۔ ایسے میں شرد پوار چاہتے ہیں کہ حکومت کی تائید کرتے ہوئے اس کی صفوں میں اپنے لئے نرم گوشہ رکھا جائے اور وقت ضرورت حکومت کی مدد حاصل کرتے ہوئے عدالتی کشاکش اور مقدمات سے بچا جاسکے۔ شیوسینا۔ بی جے پی کو کبھی ایک دوسرے کو اپنی فطری حلیف قرار دیتے تھے اقتدار اور سیاسی بالا دستی کی جنگ میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ بی جے پی کے توسیع پسندانہ عزائم کی صرف ابتدائی جھلک ہے اور اس کے اثرات مستقبل میں دوسری حلیف جماعتوں پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔ بی جے پی فی الحال اسے ملنے والی رائے دہندوں کی تائید کو دیکھتے ہوئے کسی بھی حلیف جماعت کو خاطر خواہ اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ موجودہ صورتحال صرف اسے اپنے آپ کو مستحکم بنانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے اور اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ یہ صورتحال سیاسی موقع پرستی کی بھی مثال ہے۔ یہ صورتحال سے بی جے پی کی تائید و حمایت کرنے والی دوسری حلیف جماعتوں کیلئے لمحہ فکر ہے۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ بدلتے وقت میں بی جے پی جب اپنی قدیم ترین حلیف کو دھتکار سکتی ہے تو دوسری جماعتوں سے ترک تعلق کرلینا اور موقع پرستی کی ایک اور مثال قائم کرنابی جے پی کیلئے مشکل نہیں ہوگا۔