شیلٹر ہومس پر کڑی نگرانی ضروری

نیتا جی تم سے مل کر ہم
خوش تھے پہلے بعد ہیں کتنے
شیلٹر ہومس پر کڑی نگرانی ضروری
بہار کے ضلع مظفر پور کے بہبود اطفال مرکز میں جنسی ہراسانی کے معاملے پر تنازعات کا شکار نتیش کمار حکومت کی سابق وزیر منجو اور ان کے شوہر چندر شیکھر ورما کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ۔ یو پی اور بہار میں شیلٹر ہومس میں جنسی استحصال کے واقعات کے بعد کئی خانگی تنظیموں نے اس طرح کے شیلٹرس ہومس کا جائزہ لیا اور ان مراکز میں موجود لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں پر رپورٹ بھی تیار کی ہے ۔ اسی طرح کی ایک رپورٹ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشیل سائنس نے بھی تیار کی جس میں سنگین واقعات کا سوشیل آڈٹ کیا گیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ ادارے ایسی حالت میں چلائے جارہے ہیں جو ناقابل بیان ہے ۔ 100 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں مظفر پور شیلٹر ہوم کے بارے میں تلخ واقعات سامنے لائے گئے ہیں ۔ یہاں انتہائی قابل اعتراض طریقہ سے لڑکیوں کو رکھا جارہا تھا ۔ یو پی میں بھی ایسے ہی شیلٹرس کا پتہ چلایا گیا ۔ لڑکوں کے شیلٹرس ہومس میں بھی بدفعلی کے واقعات نے انسانیت کو شرمسار کردیا ہے ۔ مظفر پور کے گرلز شیلٹر ہوم زیادتی کے کیس میں جب اس کی نگرانی کرنے والے چندر شیکھر کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تو جنتادل یو کی لیڈر اور بہار کی وزیر سماجی امور و بہبود منجو ورما کو مستعفی ہونا پڑا تھا ۔ ان کے استعفیٰ کے بعد ہی سی بی آئی نے اس کیس کی تحقیقات کر کے 17 اگست کو منجو ورما کے مکان پر دھاوا کیا جہاں سے 50 کارآمد کارتوس اور کئی اہم دستاویزات برآمد کئے گئے ۔ اس سماجی امور اور بہبود کی وزیر کی سرپرستی میں اگر شیلٹر ہومس کا یہ حال ہے تو ملک کے مختلف علاقوں میں خانگی طور پر چلنے والے شیلٹرس ہومس اور سرکاری اقامتی اداروں کی صورتحال کے بارے میں تحقیقات کروانا ضروری ہے ۔ مظفر پور کے شیلٹر ہوم میں 34 لڑکیوں کی عصمت ریزی کی جب خبریں عام ہوئی تو اس طرح کے کئی شیلٹرس میں ہونے والی جنسی ہراسانی کے واقعات بھی منظر عام پر آئے ہیں ۔ معصوم لڑکیوں کے لیے جو بے یار و مددگار ہوتی ہیں اس طرح کے شیلٹر ہومس ڈراؤنے و ہولناک ٹھکانوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں ۔ ان شیلٹر ہومس کا کوئی سرکاری ریکارڈ نہ ہونے سے بھی جرائم اور گھناؤنے واقعات کو کھلی چھوٹ ملتی ہے ۔ اگرچیکہ سپریم کورٹ نے گذشتہ سال ملک بھر کے تمام شیلٹر ہومس کے رجسٹریشن کو یقینی بنانے کی حکومت کو ہدایت دی تھی اور کہا تھا کہ بچوں کے ساتھ انصاف کے قانون 2016 کے تحت ان شیلٹرس ہومس کی دیکھ بھال موثر طریقہ پر کرنے کی ضرورت ظاہر کی گئی تھی ۔ لیکن بدبختی کی بات یہ ہے کہ بہار اور اترپردیش نے کہا تھا کہ ان کی ریاست میں اس طرح کے چائیلڈ شیلٹرس نہیں ہیں جیسا کہ قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال نے اڈیٹ رپورٹ میں کہا تھا لیکن صدمہ خیز بات یہ ہے کہ ریاستی حکومتوں نے سپریم کورٹ کی ہدایات اور احکامات کو نظر انداز کردیا ۔ بہار اور یو پی کے بشمول 9 ریاستوں نے سپریم کورٹ کے احکام کی روشنی میں کوئی قدم ہی نہیں اٹھایا اور نہ ہی سوشیل آڈیٹ کروائی گئی ۔ اب جب کہ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشیل سائنس نے 110 این جی اوز کی جانب سے چلائے جانے والے شیلٹرس ہومس کے منجملہ 15 اداروں میں صورتحال ابتر ہے اور یہ تمام بہار میں ہی قائم ہیں جہاں 9462 بچے رہائش پذیر ہیں ۔ یو پی اور بہار میں معصوم لڑکیوں اور لڑکوں کے ساتھ ہونے والے جنسی ہراسانی کے واقعات کا سخت نوٹ لیتے ہوئے کارروائی کی ضرورت ہے ۔ بہار میں ہی اوم سائی فاونڈیشن کے تحت چلائے جانے والے لڑکوں کے شیلٹر ہومس میں بھی بڑی عمر کے لڑکوں کے ساتھ چھوٹی عمر کے لڑکوں کو رکھا گیا ہے جہاں دونوں ہی عمر کے لڑکوں نے جنسی ہراسانی اور استحصال کی شکایت کی ہے ۔ این جی اوز کی آڑ میں غیر قانونی اور غیر اخلاقی واقعات رونما ہوتے ہیں تو ان کا سخت ترین نوٹ لینا حکومت اور قانون کی ذمہ داری ہے ۔ ان این جی اوز سے سیاسی تعلق ہوتا ہے تو ان سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کو بھی منظر عام پر لاکر اس کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے ۔ ملک بھر کے شیلٹرس ہومس کی آڈٹ کرتے ہوئے ان کی کارکردگی پر سخت نگرانی رکھنی ہوگی ۔۔