مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ
پیغام حق کی اشاعت کیلئے جن بزرگ ہستیوں نے نمایاں رول ادا کیا ہے ان میں ایک اہم نام ــ’’شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ‘‘ کا ہے،اللہ سبحانہ کے جن چنندہ ومنتخب بندوں کی حیات انسانیت کیلئے آب حیات کا درجہ رکھتی ہے ان میں آپ کی ذات بھی شامل ہے ۔ حق کی تلاش و جستجو آپ کوبچپن سے رہی ہے ، اسی تلاش حق کی جستجو نے ان کواپنا وطن چھوڑنے پرمجبور کیا ، تحصیل علم کیلئے بغداد کا رُخ کیا، سطحی طور پر معلومات حاصل کرنے اور علم کی سند پانے کا جذبہ نہیں تھا بلکہ وہ چاہتے تھے کہ ہر فن میں کمال حاصل کیا جائے اور اس میں گہری نظر پیداکی جائے چنانچہ باکمال اساتذہ اور ہرفن کے ماہرین کے آگے زانوے ادب تہ کیا اور اس میں پورا کمال حاصل کیا، علم کے ساتھ عمل کو ایسے لازم کرلیا کہ اس میں کبھی کوئی کمی آنے نہیں دی ، کتاب وسنت سے منصوص ظاہری علوم کی تحصیل میں گہرائی وگیرائی پیدا کرنے کے ساتھ باطنی علوم کی تحصیل کیلئے باکمال شیوخ طریقت سے رجوع کیا ، خاص طور پر ’شیخ ابوالخیرحمادبن مسلم الدباس‘ کی خدمت میں رہ کر طریقت کی راہ کے آداب اور اس کی نزاکتوں اور اس علم کے حقائق ودقائق سے خوب خوب واقفیت حاصل کی ۔ حضرت الشیخ کے اخلاص اور انکی للّٰہیت کی وجہ اللہ نے قبولیت عام سے نوازا، درس و تدریس کی مسند پر جونہی متمکن ہوئے خلقِ خدا کا ہجوم تحصیل علم کیلئے حاضر ہونے لگا، اکتساب فیض کرنے والوں میں عوام و خواص سبھی شامل تھے ، آپ کی مجالس میں بڑے بڑے فقہاء و علماء شریک ہوتے اور آپ کے فرمودات وافاضات کو قلمبند کرنے کے ساتھ اپنے دلوں پر رقم کرلیتے ، آپ کی بزرگی اور آپکی کرامات کا ساری دنیا میں بڑا شہرہ ہے لیکن آپ کی سب سے بڑی کرامت روحانی اعتبار سے مردہ دلوں کوزندہ کرنااور انسانی دلوں میں نئی ایمانی روح پھونکنا ہے ۔ ملت اسلامیہ بحیثیت مجموعی مردگی کاشکار ہوگئی تھی ، انسانی سینے روح توحید سے خالی اور نورتوحید سے بے نور ہوچکے تھے ،
دلوں کی دنیا اُجڑی ہوئی تھی ، آخرت کو فراموش کرکے دنیا طلبی کی چاہت نے انسانوں کو اپنے مالک وخالق اور معبود برحق سے دور کردیا تھا اور اس کے بھیجے ہوئے پیغام حق سے غفلت میں ڈال دیا تھا، آپ نے اپنے ارشادات اور اپنی پاکیزہ زندگی کے عملی پیغام سے ملت اسلامیہ کے اندر ایمان وروحانیت کی ایک نئی جان پیداکردی، وہ جو مادیت کے اندھیرے میں کھوکر حق اور پیغام حق کے نور سے دور ہوگئے تھے ان کو پھر سے توحید ورسالت کے نور کا اُجالا بخشا ، کئی ایک فاسدالاعتقاد اور فاسدالاعمال افراد انسانیت نے آپ کے فیضان علمی وروحانی سے اپنے اعتقادات واعمال کی اصلاح کرلی، کئی ایک اہل کتاب اور کئی ایک باطل کے پرستار آپ کی مجالس کی نورانیت سے ایسے سرشار ہوئے کہ وہ اسلام کے سائبان رحمت میں آگئے، چنانچہ آپ کے دست حق پرست پر پانچ ہزار سے زائد یہودی و نصرانی اسلام قبول کیے اور ایک لاکھ سے زائد وہ افرادانسانیت جو جرائم کی دنیا میں اپنا بڑانام رکھتے تھے شیخ ربانی کی اصلاحی تعلیمات کی وجہ تائب ہوکر اپنے وقت کے علماء و صلحاء میں جگہ پاگئے(قلائد الجواہر)۔
تسلیم وتفویض اور توحیدکامل میں آپ کو خاص مرتبہ حاصل تھا، اس مرتبہ کی تحصیل تک پہنچنے کی راہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : تفویض الی اللہ کی منزل پر پہنچنے اور قضاوقدر کے فیصلہ پر راضی برضارہنے والے کی مثال یوں ہے کہ گویا وہ ایک شیرخوار بچہ ہے جو دایہ کی گود میں ہے وہ جیسے چاہے اسکے ساتھ سلوک کرے لیکن وہ شیرخوار نہ اس میں مداخلت کرتا ہے نہ اپنا کوئی اختیار استعمال کرتا ہے یا پھر وہ گویا ایک مردہ ہے جو غسال کے ہاتھ میں ہے اسکی مثال گویا ’’مردہ بدست زندہ‘‘ کی ہے ، اب زندہ جوچاہے سلوک کرے مردہ کوئی مزاحمت نہیں کرتا۔ توحید کا کمال یہی ہے کہ بندہ اپنی ذات کو حق کی مرضیات میں ایسا فنا کرے کہ اس کو ہر بات میں حق دکھائی دینے لگے، نفع ہو کہ ضرر اب اسکی نظر سوائے حق کے کسی اور کی طرف نہ ہونے پائے(فتوح الغیب)۔
اس مرتبہ ومنزل کو قرآن پاک میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’آپ فرما دیجئے کہ یقینا میری نماز ، میری تمام عبادات اور میری قربانی سب اللہ کیلئے ہے جو سارے جہانوں کامالک ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی بات کاحکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں پہلا ہوں (۶؍۱۶۲،۱۶۳)‘‘۔ اس آیت پاک میں توحید و تفویض کے جس بلند ترین مرتبہ کی نشاندہی کی گئی ہے یہ تو عبدیت و بندگی کا وہ اعلیٰ وارفع مرتبہ ہے جس پر سید الکائنات سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فائز ہوئے ،اولیاء کاملین وعلماء ربانیین آپ ﷺ کے نقش راہ پر چلتے ہوئے تفویض وتسلیم ، بندگی و عبدیت کے مراتب پانے میں حسب طلب ومجاہدہ کامیاب ہوسکے ہیں ۔ ایک ایسے دور میں جبکہ انسان حق سے دور ہوگئے تھے، آخرت تو رہی ایک طرف دنیا کے بارے میں بھی انسانوں کی نگاہیں حق کے بجائے غیرحق یعنی دوسرے انسانوں اور اہل ثروت پر لگی ہوئی تھیں، اصحاب سلطنت ودولت سے وابستگی میں وہ اپنی کامیابی کا نقشہ تلاش کررہے تھے یہاں تک کہ غیرحق یعنی کئی انسانوں کو نفع و ضرر کا مالک سمجھ لیا گیا تھا جبکہ یہ اسباب کے درجہ کی چیز ہیں اصل مسبب تو حق سبحانہ وتعالیٰ ہی کی ذات ہے ایسے میںحضرت الشیخ جیلانی قدس سرہ نے جوپیغام دیا ہے وہ اصحاب بصارت وبے بصارت کو بصیرت کا نور دے سکا ہے جس سے انکے دل نورتوحید سے روشن ومنور ہوسکتے ہیں۔ اورفرماتے ہیں: وہی تو ہے جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور بنانے والا ہے ، وہی اوّل ہے وہی آخر ، وہی باطن ہے وہی ظاہر، دل کی محبت، روحوں کا اطمینان، مشکلات سے سبکدوشی،بخشش و احسان اِن سب کا رجوع اسی کی طرف سے اور اُسی کی طرف سے اس کا صدور ہے‘‘ (تاریخ دعوت و عزیمت، بحوالہ رموزالغیب)۔
راہ حق سے گم گشتہ انسانوں کو راہ حق دکھانے میں حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ نے اپنی زندگی بسر کی ، آپ کی کوششوں سے ایک عظیم الشان روحانی انقلاب برپا ہوا ، اَن گنت انسان راہ حق پر گامزن ہوئے، کئی ایک انسان تجدید ایمان کرکے ایمان کے تقاضوں کو پورا کیا، ملت اسلامیہ جو روحانی گرمی کھو کر ٹھنڈی ہوگئی تھی پھر سے اس کو روشن کیا جس سے معاشرہ میں ایمانی زندگی کی لہر پیدا ہوگئی ، اتباع شریعت انسانوں کا نصب العین بن گیا، کتاب وسنت کا نور زندگیوں میں جھلکنے لگا، روحانیت تقویٰ و پرہیزگاری، اخلاص اعمال ، ایمان و احتساب، ریاضات و مجاہدات ان نیک بندوں کی زندگی کا عنوان بن گئے وہ جو آپ کی صحبت کیمیا اثر سے فیضیاب ہوئے ان کے کیا کہنے وہ تو اپنوں کا ہاتھ تھام کر بارگاہِ حق میں ان کو رجوع کروانے کا فرض پورا کرتے رہے، حق کی محبت کی چنگاری کو شعلہ بنانے میں مصروف عمل رہے، بندگان خدا کو دین پر استقامت اور اپنے نفوس کو ایمانی حرارت سے گرم وتازہ رکھنے کی تلقین کرتے رہے ۔ ایمان و اسلام کی حقیقتوں کو سمجھانے اور اس پر عمل کروانے کی ایسی بیش بہا کوششیں جو انسان کو مقام احسان تک پہنچا دے ، یہ وہ زرین کارنامہ ہے جو شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کی ذات سے ہوپایا ہے۔الغرض آپ کی ذات اور آپ کی عملی زندگی اور آپ کی تعلیمات مادّیت کے سیلاب میں بہنے والی دنیا کیلئے روحانیت کا ایک عظیم تحفہ ہے جس سے روشنی حاصل کر کے انسانیت بہت بڑی مصیبت سے نجات پاسکتی ہے اور یہ ایسا آب حیات ہے جس کو پی کر انسان کی روحانیت حیات ابدی وسرمدی حاصل کرسکتی ہے۔