شیخ الاسلام حضر ت مولانا محمد انوار اللہ فاروقی نور اللہ مرقدہ {بانی جامعہ} کے احسانات بالعموم مسلمانان ہند اور بالخصوص مسلمانان دکن پر بہت زیادہ ہیں۔آپ نے دنیا میں ایسے وقت آنکھ کھولی جب پورا دکن لہو ولعب، کھیل تماشوں، عیش وعشرت او رجہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ دکن کو جہالت کے اس غار سے نکالنے اور معاشرے کی اصلاح کرنے کا کام اللہ تعالی نے حضرت مولانا انواراللہ فاروقیؒ کے لیے مقدر کردیا تھا۔ آپ نے اپنے شاگرد بادشاہ وقت کا ذہن علم دوستی، علم پروری اور اصلاحات کی طرف موڑ کر بڑے علمی اور اصلاحی کام کیے۔ جس کی وجہ سے ریاست حیدرآباد کو پورے بر صغیر میں ایک نمایاں مقام حاصل ہو گیا۔ میر عثمان علی خاں آصف جاہ ہفتم کے عہد میں جتنے علمی، اصلاحی تعمیری کام ہوئے ان سب میں بالواسطہ حضرت شیخ الاسلام کا ہاتھ ضرور شامل رہا۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، کی اولاد میں ۳۹ ویں پشت میں تھے۔ آپ کے جد اعلی شہاب الدین علی تھی جن کا لقب فرخ شاہ کابلی تھا اور کابل کے رؤساے شہر میں سے تھے۔ حضرت شیخ الاسلام ۴؍ربیع الثانی ۱۲۶۴ہجری کو ضلع ناندیڑ میں پیدا ہوئے۔ ناظرہ اور حفظ قرآن کی تکمیل کے بعد ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد مولانا قاضی شجاع الدین قندہاری سے پائی اور علوم دینیہ کی اعلی تعلیم کے لیے مولانا عبدالحلیم فرنگی محلیؒ، مولانا عبدالحی فرنگی محلیؒ اور مولانا فیاض الدین اورنگ آبادیؒ کے آگے زانوے تلمذ طے کیا۔ نیز تفسیر اور حدیث کا درس آپ نے شیخ عبداللہ یمنی ؒسے بھی لیا۔
اگرچہ شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ۱۲۹۴ ہجری اور ۱۳۰۱ ہجری میںدو حج کرچکے تھے لیکن ۱۳۰۵ ہجری میں آپ نے ترک وطن کرکے مدینہ منورہ ہجرت کی تیسرا حج کیا اور جوار رسولﷺ میں سکونت اختیار کرلی۔ یہاں آپ نے قیام مدینہ کے دوران ایک گراں قدر کتاب ’’انوار احمدی‘‘ تصنیف کی اور وہاں کے کتب خانوے سے بھر پور استفادہ کیا اور ایک بڑی رقم خرچ کرکے بعض نادر ونایاب کتابوں کی نقلیں تیار کرائیں چنانچہ ان نوادرات میں حدیث کی چار اہم کتابیں قابل ذکر ہیں۔ (۱) کنز العمال (۸)جلدیں (۲) الجوہر النقی علی سنن البیہقی (۳) الاحادیث القدسیہ (۴) جامع المسانید للامام الاعظم۔
مدینہ منورہ میں ابھی قیام کے تین سال ہی گذرے تھے کہ آپ کو بارگاہ رسالت سے دکن واپس جانے کا حکم صادر ہوا۔ آپ سخت پریشان ہوئے جوار رسول میں پوری زندگی بسر کرنے کا منصوبہ ختم ہوا جارہا تھا۔ آپ فورا اپنے شیخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نور اللہ مرقدہٗ کی خدمت میں مکہ مکرمہ روانہ ہوئے اور بشارت کی تعبیر لی۔ شیخ نے فرمایا حکم کی تعمیل کرو، ہرگز تردد نہ کرنا۔ کون مسلمان اس آستانہ کو بطیب خاطر چھوڑتا ہے مگر ایمان کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ حکم رسول آگے سر تسلیم خم کردو خواہ تمہاری آرزؤں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو چنانچہ عشق رسول میں ہجرت کرنے والا یہ مہاجر عشق رسول ہی میں حکم رسول سے پھر واپس دکن پہنچ گیا۔
حضرت بانی جامعہ نظامیہ شہر کے مساجد میں با جماعت ادائے نماز کے لئے ائمہ اور موذنین کا تقرر وانتظام حکومت کی جانب سے کرایا۔ منشیات کی دکانیں بیرون شہر منتقل کرائیں اور شہر میں منشیات کے کاروبار کو قانوناً ممنوع قرار دیا۔ احترام رمضان کے سلسلے میں ہوٹلوں پر پردے ڈلوائے اور علانیہ خورد ونوش کو ممنوع قرار دیا۔ بزرگان دین کے مزارات پر طوائفوں کے جانے پر پابندی عائد کی۔ عورتوں کے مرلی اور مردوں کے مخنث بنے کی رسم کو لائق تعزیر جرم قرار دے کر فحاشی کا ایک بہت بڑا دروازہ بند کیا۔ وغیرہ وغیرہ۔
سرزمین دکن کا یہ مصلح اعظم‘ آفتاب علم وارشاد زندگی بھر ملت اسلامیہ اور دین اسلام کی خدمت کرکے یکم جمادی الاخر ۱۳۳۶ ہجری کو غروب ہوگیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
{مرسلہ : ابوزہیر}