شیخ الاسلام محمد انواراﷲ فاروقی علیہ الرحمہ کے کارنامے

ابوزہیر نظامی

ایسے تو دنیا میں بے حساب مصلحین اور رہنماؤں نے اپنی طاقت کے مطابق علمی واصلاحی میدان میں عظیم الشان خدمات انجام دیئے، لیکن آپ بہت کم ایسے نفوس کو صفحات تاریخ پر ستاروں کی طرح درخشاں پاؤگے، جنھوں نے علمی و اصلاحی دنیا کے مکمل تقاضوں کو پورا کرنے کی نہ صرف کوشش کی بلکہ علمی و اصلاحی شعبوں کے مختلف پہلوؤں پر انکی نظر تھی۔ انہیں میںسے ایک حضرت شیخ الاسلامؒ کا شمار ہوتا ہے۔ جہاں شیخ الاسلامؒ نے جہالت کی تاریکی میں علم دین کی شمع روشن کرنے کے لئے جنوبی ہند کی سرزمین پر ۱۹؍ذوالحجۃ الحرام ۱۲۹۲ھ کو ایک عظیم الشان علمی قلعہ ’’جامعہ نظامیہ‘‘ کی بنیاد رکھی وہاں آپ نے ایک عظیم الشان کتب خانہ کی بنیاد ڈالی۔جو  ہزارہا بیش قیمت اور نایاب وکمیاب کتابوں پر مشتمل ہے یہ درحقیقت شیخ الاسلامؒ کاذاتی کتب خانہ تھا جس پر آپ ہزاروں روپئے صرف فرمائے آخر کار اس محبوب دولت کو محبوب ذخیرہ آخرت مدرسہ نظامیہ کے نام وقف فرمادیا۔ پھر علم دین کی شمع کو مسلسل روشن رکھنے کے لئے اور علوم قدیمہ کے بیش بہا خزانہ کو محفوظ کرنے کے لئے وقت کی ایک اہم ضرورت تھی کہ ایک مطبع کا قیام عمل میں لایاجائے
جو اسلامی نایاب کتب کے ترکہ کو زیور طبع سے آراستہ کر کے دنیا ئے علم میں ایک علمی وتحقیقی فضاء پیدا کرے چنانچہ ’’دائرۃ المعارف‘‘ کی تحریک اٹھائی اور ایک عظیم الشان مطبع کا قیام عمل میں آیا ۔اس دائرے سے سب سے پہلی کتاب شیخ علاء الدین برہانپوریؒ کی تصنیف ’’کنزالعمال‘‘ کی طباعت عمل میں آئی جو احادیث نبویہ کا بہترین مجموعہ بلکہ احادیث نبویہ کا انسائیکلو پیڈیا تصور کیا جاتا ہے جو تقریبا ۲۲ضخیم جلدوں میں دستیاب ہے یہ ان کتابوں میں سے ایک ہے جسے حضرت شیخ الاسلامؒ نے اپنے مدینہ منورہ کے قیام کے دوران ہزاروں روپئے خرچ کر کے نقل کروائی تھی یہ تو طالبان علوم دینیہ کے لئے فیض کا ذریعہ تھا۔ عوام الناس کی ضرورتوں کو محسوس کرتے ہوئے ایک جنرل لائبریری کی تحریک فرمائی یہاں تک کہ قلب شہر میں ’’کتب خانہ آصفیہ‘‘ کا وجود عمل میں آیا۔ جب مسائل کی کثرت بڑھنے لگی تو جامعہ نظامیہ ہی کے احاطے میں ایک ’’دارالافتاء‘‘ کی بنیاد ڈالی، پھر عوام الناس کے استفادہ کے خاطر اپنی تمام مذکورہ مصروفیتوں کے باوجود تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری فرمایا جن کی تعداد تقریباً چالیس تک پہنچتی ہے جن میں خصوصاً قابل الذکر کتابیں انوار احمدی، مقاصد الاسلام گیارہ حصے،حقیقۃ الفقہ اول، دوم اور کتاب العقل ہیں ان کتب اور ابنائے جامعہ کے کتب کی طباعت کے لئے ایک انجمن ’’مجلس اشاعت العلوم‘‘ کی تأسیس کی جسکے تحت بہت سی کتابیں طبع ہوئیں اور طبع ہورہی ہیں۔

آپ اس حقیقت پر بھی نظر ڈالئے کہ حضرت شیخ الاسلامؒ نے جس کام کابیڑا اٹھایا اور تحریک فرمائی آپ کے اخلاص کے نتیجہ میں اسے مثالی شہرت مل گئی چنانچہ جامعہ نظامیہ کی حیثیت ایک چھوٹے سے مکتب کی تھی مگر آپ کی انتھک کوششوں سے تمام عالم میںاسکی دھوم مچ گئی ۔ تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ نہ صرف ہند بلکہ بیرونِ ہند ایران‘ یمن، افغانستان، سمر قند، بخارا، سری لنکا و غیرہ سے طالبانِ علوم کا سلسلہ شروع ہوگیا۔تقریباً ۱۴۵ سال کا طویل عرصہ گزرجانے پر بھی جامعہ نظامیہ کی یہ جیتی جاگتی تصویر انکی عظمت کی دلیل اور انکی دینی کاوش اور اخلاص نیت اور حسنِ کمالِ علم کی نشانی بنی ہوئی ہے کیوں نہ ہو جبکہ اسکی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر قائم ہے۔