شیخین کی افضلیت کا منکر اہلسنت والجماعت سے خارج شیعہ سنی اتحاد ، وقت کی ضرورت

اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے فضل و کرم سے اُمت اسلامیہ نے ہر وقت ، ذات رسالتمآب صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم ، قرآن مجید ، شریعت مطہرہ اور شعائر اسلامی پر جوشِ ایمانی اور وحدت اسلامی کا مظاہرہ کیا ہے ، تاہم مسلکی اختلافات اور فرقہ بندیوں نے ہر دور میں اُمت اسلامیہ کے شیرازہ کو بکھرنے میں اہم رول ادا کیاہے۔ افسوس کہ آج کے اس تعلیم یافتہ دور میں مشرق وسطیٰ شیعہ سنی اختلافات سے جھلس رہاہے اور مغربی اقوام ان کی باہمی ریشہ دوانیوں سے بھرپور فائدہ اُٹھارہی ہیں۔ شومہ قسمت کے مسلمان کا لہو مسلمان کے ہاتھ سے بہہ رہا ہے ، عراق کی تباہی ہو یا شام کی بربادی ، یمن کی حالت زار ہو یا سعودی عرب اور ایران کی کشمکش سارا مشرق وسطیٰ مسلکی اختلافات کے نام پر تباہ ہورہا ہے اور اہل اسلام کی غیرمعمولی طاقت و قوت انتشار کا شکار ہوکر بکھر رہی ہے ۔ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر اُمت کے سواد اعظم ائمہ اربعہ کے مقلدین اور اہلحدیث حضرات کے مابین فقہی اختلافات برپا ہے ، بعض دشمن عناصر نے اس مسئلہ کی آڑ میں اہل اسلام کے مسلکی اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کی لیکن ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے سیاسی شعور اور ملی اتحاد کا عظیم نمونہ پیش کیا نیز دنیا کے مسلمانوں کے لئے مسلکی رواداری کی ایک بہترین مثال قائم کی ۔ بلاشبہ اس کا سہرا ہندوستان کی مذہبی قیادت کو جاتا ہے۔ نازک وقت میں مختلف مسالک و مکاتب فکر کی مذہبی قیادت نے تاحال دور اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ پھر ایک بار بابری مسجد مسئلہ پر شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے کی دانستہ کوشش کی گئی ہے جو ان شاء اللہ نہ صرف ناکام ہوگی بلکہ اُمت اسلامیہ کے مزید اتحاد و اتفاق کا سب بنے گی ۔
آزادی کے بعد سے ہر حکومت نے مسلمانوں کو ہرلحاظ سے پسماندہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور وقفے وقفے سے دانستہ طورپر ان مسائل کو اُٹھانے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دشمن چاہتا ہے کہ ہم تعلیمی اور معاشی میدان میں استحکام کی طرف بڑھنے کے بجائے ان مسائل میں اُلجھ کر پسماندگی کے دلدل میں پھنستے چلے جائیں ۔ اُمید ہے کہ ہندوستان کا مسلمان خواہ شیعہ ہو یا سنی پہلے سے زیادہ مسلکی رواداری کامظاہرہ کریگا اور ہندوستان کے سیاسی اُفق پر اپنے وجود کو ثابت کرنے میں نمایاں کردار ادا کریگا ۔
قابل ذکر پہلو یہ ہے حالیہ چند عرصے سے کچھ ناعاقبت اندیش اہلسنت والجماعت کے منبر و محراب سے اور عوامی مجالس میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین پر بے محابا گفتگو کررہے ہیں اور ان کے درمیان ہوئے علمی ، فکری اور اجتہادی اختلافات پر تبصرہ کررہے ہیں جبکہ اہلسنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حق حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ تھا اور جو شہید ہوئے وہ جنتی ہیں کیونکہ ان کی نیت میں خلوص تھا اور جو شریک ہوئے وہ اجر و ثواب کے مستحق ہوئے ۔ کسی بدگمانی کی ضرورت نہیں نہ کف لسان کرنا لازم ہے ۔ ان کو جاننا چاہئے کہ سابقہ قوموں میں جن دروازوں سے گمراہی داخل ہوئی نبی اکرم ﷺ نے ان دروازوں کو پرزور انداز میں بند کیا اور اُمت کو ان گمراہی کے راستوں سے واقف فرمایا ۔ گمراہی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم پر بحث و کلام کے ذریعہ داخل ہوسکتی تھی حضور پاک ﷺنے اعلان فرمادیا : ’’جب میرے صحابہ کا ذکر ہو تو اپنی زبانوں کو روک لو (احتیاط کرو) جب ستاروں کا ذکر ہو تو رُک جاؤ اور جب قضاء و قدر کا ذکر ہو تو رک جاؤ‘‘ (طبرانی فی الکبیر۲؍۷۸؍۲)
سابقہ قوموں کی تباہی کے چرچے قرآن پاک میں بار بار ہوئے ہیں تاکہ یہ اُمت ان اسباب سے عبرت حاصل کرے ۔ سابقہ قوموں کی گمراہی کا ایک سبب وہ انبیاء علیھم السلام کے بارے میں مؤدب نہیں تھے اور بے احتیاطی سے ان کا ذکر کرتے تھے جس کے نتیجے میں انبیاء علیھم السلام سے متعلق ان کی مذہبی کتابوں میں ایسے واقعات اور اندراجات شامل ہوگئے جو قطعاً ان کے شایانِ شان نہیں ۔ نعوذ باللہ نقل کفر کفر نہ باشد وہ لوگ انبیاء کرام کی طرف کبیرہ گناہوں کی نسبت کرتے ہیں۔ انھوں نے انبیاء کرام سے متعلق واقعات کی نہ تحقیق کی نہ قبولیت اور رد کے پیمانے مقرر کئے اور ہر رطب و یابس خشک و تر کو مذہب کا حصہ بنالیا۔ اس کے برخلاف قرآن پاک نے انبیاء کرام علیھم السلام کی زندگیوں کی تفصیلات بیان نہیں کی بلکہ انہی گوشوں کو بیان کیا ہے جو ہدایت کے لئے انسانیت کو ضرورت ہے اور اجمالی طورپر بیان کردیا کہ وہ ذوات قدسیہ ہیں جن کو اﷲ رب العزت نے ہدایت بخشی ہے تم بھی ہدایت کے لئے ان کے نقش قدم پر چلو ۔ پس کسی ایک نبی سے متعلق بدگمانی اور سوء ادبی گرچہ وہ عیسائی اور یہود کے تاریخی حقائق کی بنیاد پر ہو ایمان کو نیست و نابود کردیتی ہے۔ بعینہ یہی نقطہ نظر صحابہ کرام سے متعلق ہے ، ان کی حیات کے مختلف ادوار ہیں ۔ زمانہ جاہلیت کے احوال ، قبولیت اسلام کے بعد کے احوال ، حضور پاک ﷺ کی رفاقت و معیت کے اعمال اور آپ کے وصال کے بعد کے احوال ۔ حضور پاک ﷺ نے اجمالی طورپر فرمادیا کہ میرے صحابہ عادل ہیں ، امین ہیں ، آسمان ہدایت پر ستاروں کے مانند ہیں، انکی اقتداء کامیابی کی ضمانت ہے ۔ ان سے بدگمانی اور سوء ادبی سے منع فرمایا کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اسلام کے امین ہیں حضور پاک ﷺ کے وفادار و جانثار سپاہی ہیں، نزول وحی کے عینی شاہد ہیں ، قرآن پاک اور شریعت اسلامی کے محافظ ہیں ۔ سیرت رسول پاک ﷺ کا واحد ذریعہ ہیں خاتم النبین ﷺ اور اُمت کے درمیان وہی واسطہ ہیں ، ’’خطاب اﷲ ‘‘ کے اولین مخاطب ہیں ۔ انھوں نے روح اسلام کو براہ راست نبی اکرم ﷺ سے جذب کیا اور اُمت کو مکمل امانت سے پہنچایا ۔ صحابہ کرام سے متعلق اور ان کے درمیان ہونے والی جنگوں اور اختلافات کے بارے میں کف لسان کرنے کا حکم دنیوی مصالح کے لئے نہیں ہے بلکہ ایمان کی سلامتی کے لئے ہے ۔ ابوزعہ رازی نے فرمایا : جب تم کسی آدمی کو دیکھو جو کسی صحابی کا برائی سے ذکر کررہا ہو تو جان لو کہ وہ زندیق ہے اس لئے کہ رسول اکرم ﷺ حق ہیں ، قرآن حق ہے اور قرآن و سنت کو ہم تک صحابہ کرام نے ہی پہنچایا ہے وہ ہمارے گواہان کو خارج کرنا چاہتے ہیں تاکہ کتاب و سنت کو باطل قرار دے سکیں ۔ وہ لوگ زندیق ہیں (الکفایۃ ۔ خطیب بغدادی ص : ۹۷) امام نسائی نے فرمایا : جس نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاارادہ کیا ، بلاشبہ اس نے تمام صحابہ کا ارادہ کیاہے ۔ (تہذیب الکمال ، ترجمہ الامام النسائی ۳۴۰؍۱)
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے متعلق سوال پر فرمایا : ’’جب تم کسی آدمی کو دیکھو جو کسی صحابی کا برائی سے ذکر کررہا ہو تو اس کو اسلام پر متھم جانو ( البدایۃ والنھایۃ ۸؍۱۴۲)
قاضی عیاضؓ نے شفاء شریف میں امام مالک کا قول نقل کیا : جو کوئی حضرت ابوبکر یا حضرت عمر یا حضرت عثمان یا حضرت معاویہ یا حضرت عمرو بن العاص کو گمراہ یا کافر کہا : اس کو قتل کیا جائے گا او رجس نے ان کی شان میں بے ادبی کی اس کو سخت ترین سزا دی جائیگی ۔ ( شفاء ۲۱؍۲۶۷)
اہلسنت والجماعت کی مساجد اور مجالس میں جو لوگ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں زبانیں دراز کررہے ہیں وہ اسی حد تک محدود نہیں ہیں بلکہ وہ حضرت ابوبکر صدیقؓاور حضرت عمر فاروق ؓ کی افضلیت کے بھی منکر ہیں ۔ جو شخص حضرت ابوبکر اور حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما کی افضلیت کا منکر ہو وہ اہلسنت والجماعت سے خارج ہے ۔ اہلسنت والجماعت کے نزدیک خلفاء راشدین میں افضلیت کی ترتیب خلافت کی ترتیب کے مطابق ہے یعنی اس اُمت میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق ؓ پھر حضرت عمر فاروقؓ پھر حضرت عثمان غنیؓ پھر حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ اور یہ افضیلت ظاہری و باطنی ہر دو خلافت پر مشتمل ہے ۔ واضح رہے کہ شیخین کی افضیلت عہد رسالت میں بھی بدیہی اور اجماعی تھی ، نہ اس میں کسی کو شبہ تھا نہ کوئی اختلاف اور نہ کثرت احادیث کی ضرورت۔ چنانچہ حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے : ہم کہا کرتے تھے کہ جبکہ حضرت رسول اﷲ ﷺ جلوہ افروز تھے کہ رسول اﷲ ﷺ کے بعد اس اُمت میں سب سے افضل حضرت ابوبکر ،پھر حضرت عمر پھر حضرت عثمان پھر حضرت علی ہیں۔ اس کی اطلاع رسول اﷲ ﷺ کو پہنچتی تھی اور آپ انکار نہیں فرماتے تھے ۔ ( ابن عساکردمشقی، تاریخ کبیر) اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے صحیح قرار دیا ہے۔ (دیکھئے : المدخل الی مذھب الامام احمد بن حنبل ص :۱۷) اسی پر خیرالقرون صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین ، فقھاء ، محدثین ، ائمہ اربعہ ، اصحاب ظواھر متکلین کا اجتماع ہے ۔ بعض اولیاء اُمت نے لفظ ’’فضیلت‘‘ کو نسبی قرابت سے اور لفظ ’’خیر‘‘ کو عمومی فضائل سے تعبیر کیاہے اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ نسبی قوتِ قرابت میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خلفاء ثلاثہ میں اعلیٰ فضیلت رکھتے ہیں تاہم خلفاء ثلاثہ کی افضلیت و اولیت مسلم ہے ۔ (تفصیل کے لئے مکتوب شریف (۲۵۱) حضرت مجدد الف ثانی قرس سرہ العزیز قابل دید ہے)