جناب محمد رضی الدین معظم
’’شہید‘‘ کے لغوی معنی گواہ، حاضر ہونا، دیکھنا اور مطلع ہونا کے ہیں۔ اصطلاحِ شریعت میں اللہ کی راہ میں مارے جانے والوں کو شہید کہتے ہیں۔ شہید کی دو قسمیں ہیں (۱) شہید حقیقی اور (۲) شہید حکمی۔ شہید حقیقی کا مطلب وہ مسلمان جو کسی ہتھیار، پتھر یا گولی وغیرہ سے مار دیا گیا ہو اور وہ زخمی ہونے کے بعد غذا پانی، دوا اور کوئی دنیاوی نفع اُٹھائے بغیر دم توڑ دے تو شہید حقیقی کہلائے گا۔ لہذا ایسی صورت میں فقہاء کرام کی نظر میں یہ حکم ہے کہ بلاغسل و کفن نماز جنازہ کے بعد خون آلود کپڑوں ہی میں تدفین کردیں۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ جس طرح انبیاء کرام کا وضوء نیند سے بیدار ہونے کے بعد نہیں ٹوٹتا، اسی طرح شہید حقیقی کی موت کے بعد ان کا غسل بھی نہیں ٹوٹتا۔
بعد تدفین شہید بارگاہ الہٰی میں یہ تمنا کرتے رہتے ہیں کہ مجھے دنیا میں پھر بھیجا جائے، تاکہ میں اللہ کی راہ میں اپنی جان دینے کی لذت و سرور سے پھر لطف اندوز ہو سکوں، جو اس سے قبل مجھے حاصل ہوئی تھی۔ بعد وفات شہید کو رزق ملتا رہتا ہے اور شہید کا جسم زمین نہیں کھاتی۔ شہید سے سوالات قبر بھی نہیں کئے جاتے۔ شہداء کرام کی ارواح کو جسمانی قوت ملتی ہے، وہ زمین و آسمان میں جہاں چاہیں جاتی ہیں اور دوستوں کی مدد کرتی ہیں، دشمنوں کو ہلاک کرتی ہیں۔
دوسری قسم ’’شہادت حکمی‘‘ کے لوگوں کو آخرت میں اللہ رب العزت اپنے فضل و کرم سے شہادت کا مرتبہ عطا فرمائے گا، جس میں سفر حج کے دوران مرنے والے، حصول علم دین کے دوران فوت ہونے والے، حفاظ کرام، علماء دین، اثنائے راہ میں حادثہ سے جاں بحق ہونے والے، ڈوب کر، سخت درد شکم، وضع حمل کے دوران اور یوم الجمعہ یا پنجشنبہ کی شب انتقال کرنے والے بھی شہادت کے مرتبہ سے فیضیاب رہیں گے۔ اگرچہ انھیں غسل دیا جائے گا، کفنایا بھی جائے گا، اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی ان کی موت جہاد اصغر کہلاتی ہے۔ اللہ رب العزت ان دونوں قسموں کے شہداء کو چھ خصوصیات سے ممتاز فرماتا ہے: (۱) شہید کی مغفرت بار اول ہی میں ہو جاتی ہے (۲) شہید کو عذاب قبرنہیں (۳) شہید موت سے پہلے جنت دیکھ لیتے ہیں (۴) شہید کو روز قیامت گھبراہٹ نہیں ہوگی (۵) شہید کے سرپر باوقار نورانی تاج ہوگا، جسے دیکھ کر لوگ پہچان لیں گے کہ یہ شہید ہیں (۶) حوریں ان کے نکاح میں ہوں گی۔