لڈؤں کے عوض ایمان کا سودا … ؟
!شہر کے واقعات مسلمانوں کے لیے لمحہ فکر
حیدرآباد ۔ 5 ۔ ستمبر : ( سیاست نیوز ) : توہم پرستی وہ مہلک بیماری ہے جو نہ صرف عزت ، دولت کو تباہ و برباد کردیتی ہے بلکہ انسان کو ایمان جیسی بیش بہا دولت سے بھی محروم کردیتی ہے ۔ وہ انسان انتہائی بدقسمت ہے جو نفع اور فائدے کے لیے غیر اللہ سے امید لگائے بیٹھتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں خاص طور سے توہم پرستی ایک وبائی شکل اختیار کرلی ہے اور اس کی گندگی میں معاشرے کا ہر طبقہ لت پت ہورہا ہے ۔ یہاں دراصل جانوروں کو تک نیک اور بد شگون تصور کیا جارہا ہے ۔ بات اس حد تک پہونچ گئی ہے کہ اب تو کھانے پینے کی اشیاء کو بھی خوش قسمتی اور بد قسمتی کی وجہ سمجھا جارہا ہے ۔ اگر کوئی غیر مسلم اس قسم کی توہم پرستی میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے ۔ لیکن کوئی مسلمان منادر یا گنیش منڈپوں کے چکر یہ سونچ کر لگاتا ہے کہ اس کا نصیب جاگ جائے گا تو بڑی حیرت ہوتی ہے ۔ ویسے بھی شہر حیدرآباد میں حالیہ عرصے کے دوران توہم پرستی کے بے شمار واقعات منظر عام پر آچکے ہیں ۔ جس میں مسلمان مرد و خواتین ملوث رہے ہیں ۔ ہر سال گنیش وسرجن کے موقع پر دونوں شہروں کے مختلف گنیش منڈپوں پر لڈوں کا ہراج کیا جاتا ہے ۔ ان لڈوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو انہیں ہراج میں بولی لگا کر حاصل کرتا ہے وہ بڑا خوش قسمت ہوتا ہے ۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایک اللہ کی عبادت کا دعویٰ کرنے والے دو مسلمانوں نے ہراج میں حصہ لیتے ہوئے لڈو اپنے نام کیا ہے ۔ گنڈی منڈل کے حدود میں واقع بنڈلہ گوڑہ میں شیواجی یوتھ اسوسی ایشن کے زیر اہتمام کیے گئے ہراج میں اسی گاؤں کے عرفان نامی مسلم نوجوان نے ایک لاکھ 87 ہزار کی بولی لگاتے ہوئے لڈو اپنے نام کرلیا ہے اور ایک واقعہ رامنتا پور میں پیش آیا جہاں مدھورا نگر ورتکا سنگھم کی جانب سے اہتمام کردہ ہراج میں محبوب ولی نے 70,116 کی بولی لگاتے ہوئے لڈو چھڑالیا ہے ۔ جو مسلمانوں کے لیے ایک لمحہ فکر ہے ۔ سیکولرازم اور مذہبی عقیدہ دو علحدہ چیزیں ہیں لیکن خود کو سیکولر ظاہر کرنے کے لیے ایمان کا سودا کرنا گمراہی کے سوائے کچھ بھی نہیں ہے ۔۔