مشن کاکتیہ کے تحت تالاب بحالی کی فہرست میں شامل ، حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت
حیدرآباد۔ 5ستمبر(سیاست نیوز) حکومت کی جانب سے ریاست گیر سطح پر تالابوں کی بازیافت اور انہیں دوبارہ سیر آب کرنے کیلئے چلا ئے جا رہے مشن کاکتیہ کے دوران شہر حیدرآباد میں خشک ہو رہے تالابوں کی فہرست میں تین تالابوں کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جن میں پرانے شہر کے علاقہ بندلہ گوڑہ میں واقع پیراں چیرو‘ عنبر پیٹ میں واقع بتکما کنٹہ اور چنگی چرلہ چیروو رنگاریڈی شامل ہیں۔ان تالابوں کے اطراف میں ہونے والے قبضۂ جات اور تعمیرات کے سبب یہ تالاب خشک ہو چکے ہیں لیکن ان تالابوں میں جو پانی جمع ہونا ہوتا ہے وہ پانی سڑکوں سے گذرتا ہوا علاقہ کے مکانات میں داخل ہونے لگتا ہے۔ لینڈ گرابرس جو تالابوں کے شکم اور مکمل سطح آب کے نشانوں کو مٹاتے ہوئے تالابوں کی پلاٹنگ انجام دے رہے ہیں ان کے لئے یہ خشک تالاب بھی اب کسی پلاٹ کی طرح ہو چکے ہیں جن کی کسی بھی وقت پلاٹنگ ممکن ہے۔ تالابوں کے تحفظ کیلئے جدوجہد کرنے والی تنظیموں کی جانب سے متعدد مرتبہ توجہ دہانی کے باوجود بھی ان تالابوں کے پشتہ و شکم میں تعمیرات کو نہ روکے جانے کے سبب یہ تالاب اب مکمل طور پر خشک ہو چکے ہیں۔ چنگی چرلہ تالاب کے اطراف تعمیرات کے خلاف لوک آیوکت کے احکام کے باوجود جاری تعمیرات نے تالاب کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس تالاب تک آبی رسائی کا عمل بڑی حد تک مفقود ہو چکا ہے جس کے سبب تالاب میں برائے نام پانی موجود ہے۔ اسی طرح عنبر پیٹ کے علاقہ میں موجود بتکما کنٹہ کی خشکی کا متعدد مرتبہ تذکرہ کیا جا چکا ہے جو کہ سال بھر کچہرے کے انبار سے بھرا رہتا ہے اور بتکما تہوار کے دوران محکمۂ آبپاشی کی جانب سے اس تالاب کو کچھ وقت کیلئے لبریز کیا جاتا ہے۔ بندلہ گوڑہ پیراں چیروو کے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ تالاب میں پانی پہنچنے کے راستے بند ہونے کی اہم ترین وجہ اطراف کے علاقوں میں غیر منصوبہ بند طریقہ سے تعمیر کردہ سی سی روڈ ہیں جن کی تعمیرات نے تالاب کو نقصان پہنچانے میں اہم کردار اد ا کیا ہے۔دونوں شہروں کے اطراف میں خشک ہورہے تالابوں کی اراضیات پر اب لینڈ گرابرس کی نظریں مرکوز ہونے لگی ہیں اور ان تالابوں کے خشک ہونے کے بعد مزید خطرات پیدا ہو چکے ہیں۔ گوگل پیاپ میں یہ تالاب موجود ہیں اور انہیں تصاویر میں دکھایا بھی جا رہا ہے لیکن جب اسی گوگل میں سیٹلائیٹ تصاویر کا مشاہدہ کیا جائے تو ان تالابوں کی جگہ آباد بستیاں نظر آنے لگی ہیں۔