تیز ہوائیں اور بارش سے نقصان کا امکان ، حکومت کو فوری توجہہ دینے کی ضرورت
حیدرآباد ۔ 11 ستمبر ۔ ( سیاست نیوز) شہر حیدرآباد کو کہیں ذائقہ کے شہر کے نام سے جانا جاتا ہے تو کہیں اس تاریخی شہر میں موجود عمارتوں و تہذیبی ورثہ سے اس کی شناخت ہے۔ حیدرآباد موتیوں کا شہر بھی کہلاتا ہے اور اب یہ شہر ٹکنالوجی کا شہر بھی کہلانے لگا ہے لیکن اس شہر کی خاص بات تہذیب و تمدن کے علاوہ شہر میں موجود تاریخی عمارتیں ہیںجن کی نگہداشت ناگزیر ہے ۔ شہر حیدرآباد میں کلاک ٹاورس بھی انتہائی اہمیت کے حامل رہے ہیں اور شہر کی بیشتر تاریخی عمارتوں کے ساتھ گھڑیال لگی ہوئی ہیں جوکہ گذرنے والوں کو وقت دکھاتے ہوئے اُس کی قدر کا پیغام دیا کرتی تھیں ۔ لیکن فی الحال شہر کے ان کلاک ٹاورس کی جو حالت بنی ہوئی ہے اس کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے یہ کہنا دشوار ہے چونکہ بیشتر کلاک ٹاورس پر موجود گھڑیال صحیح وقت نہیں دکھارہی ہے ۔ گھڑیال کے ذریعہ صحیح وقت دکھایا جانا تو آسان ہے لیکن شہر کے کلاک ٹاورس کی جو حالت بنی ہوئی ہے اُس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہت جلد شاہ علی بنڈہ کلاک ٹاور بھیمنڈی میرعالم گھڑیال کی طرح مفقود ہوجائے گا ۔ شاہ علی بنڈہ کلاک ٹاور جوکہ راج نارائن کی دیوڑھی کے باب الداخلہ پر بنا ہوا ہے ، اُس کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر شہر میں موسلا دھار بارش کا سلسلہ چار تا پانچ یوم جاری رہا تو یہ کلاک ٹاور بھی تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔ نواب فخرالملک کی دیوڑھی واقع میرعالم منڈی کے باب الداخلہ پر کبھی میرعالم منڈی گھڑیال ہوا کرتی تھی اور آج بھی بیشتر منڈی میرعالم کے تجارتی اداروں کے پتوں میں اس کا ذکر موجود ہے لیکن منڈی میرعالم گھڑیال کو دیکھنے کیلئے کوئی پہنچتا ہے تو وہاں صرف باب الداخلہ کے کچھ آثار نظر آتے ہیں لیکن گھڑیال کہاں ہے ، یا اس کا کیا حشر ہوا ، کوئی نہیں کہہ سکتا ۔ شہر کی تاریخی عمارتوں میں کلاک ٹاورس کا بھی اہم حصہ ہے جو تہذیبی ورثہ کی فہرست میں شامل ہیں ۔ ان کا تحفظ بھی ناگزیر ہے ۔ چونکہ یہ بھی شہر کی تہذیب و تمدن کی باقیات میں شامل ہیں۔ جو حیدرآباد کو فرخندہ بنیاد بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والی عمارتیں ہیں۔ محبوب چوک کلاک ٹاور جوکہ جامع مسجد چوک کے روبرو واقع ایک چھوٹے سے پارک میں موجود ہے اس کی بھی موثر نگرانی کی جارہی ہے لیکن اسے تہذیبی ورثہ کے طورپر فروغ دینے کا منصوبہ بھی مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے پاس تعطل کا شکار بنا ہوا ہے ۔ تہذیبی ورثہ اور تاریخی عمارتوں کے تحفظ کے سلسلے میں جاری سرگرمیوں پر حکومت تلنگانہ سے کافی توقعات عوام بالخصوص اُن لوگوں کو وابستہ ہیں جو حیدرآباد کی تہذیب و تمدن کے ساتھ ساتھ تاریخ کے تحفظ کیلئے کوشاں ہیں۔ حکومت کی جانب سے اگر شاہ علی بنڈہ گھڑیال اور شہر کے دیگر مقامات پر موجود کلاک ٹاورس کی فوری طورپر نگہداشت اور اُن کی تزئین نو کے اقدامات کئے جاتے ہیں تو یہ کلاک ٹاورس بھی شہر کے تاریخی عمارتوں کی خوبصورتی میں اضافہ کا باعث بن سکتے ہیں۔ چارمینار سے فلک نما جانے والی اہم سڑک کی بائیں جانب موجود شاہ علی بنڈہ کلاک ٹاور کے تحفظ کے ذریعہ اس اہم سڑک پر سیاحوں کیلئے ایک اور دیدہ زیب عمارت کا اضافہ ہوسکتا ہے ۔ سکندرآباد کے علاقہ میں موجود سکندرآباد کلاک ٹاور کو جس طرز پر ترقی دی گئی ہے ، اُسی طرز پر اگر شہر کے دیگر کلاک ٹاورس بشمول سلطان بازار کلاک ٹاور کی بھی ترقی یقینی بنائی جاتی ہے تو ایسی صورت میں حیدرآباد ٹکنالوجی ، ذائقہ ، موتیوں ، تہذیب و تمدن کے شہر کے ساتھ ساتھ کلاک ٹاورس کے شہر کے طورپر بھی یاد رکھا جاسکتا ہے ۔