(1) سٹی کالج جس کی تعمیر کا آغاز 1917 میں ہوا اور 8 لاکھ کے صرفہ سے 1922 اس کی تعمیر مکمل ہوئی لیکن تاریخی عمارت کی آج خستہ حالت اور اس کا پرسان حال کوئی نہیں حالانکہ 2005 میں ہیرٹیج عمارت کے تحت 25 لاکھ روپئے کے صرفے سے اس کی آہک پاشی کے لیے ایک تجویز منظور کی گئی تھی لیکن آج تک اس پر عمل نہیں ہوا حالانکہ کئی فلموں کی شوٹنگ کے ذریعہ اس عمارت کو آمدنی کا ذریعہ بنالیا گیا ہے تاہم اس عمارت کی خستہ حالت کو درست کرنے کا کام نہیں کیا جارہا ۔ (2) ڈائمنڈ ہلز نیک نام پورہ میں قطب شاہی دور کی گنبد جو کے موقوفہ اراضی ہے اس پر ایک صاحب قبضے کی نیت سے گیٹ نصب کرسکے ہیں ۔ (3) قلعہ گولکنڈہ کا بنجاری دروازہ پر کچھ عرصے سے پوجا کی جارہی ہے اور پوجا کی مصروفیات میں صرف خواتین شرکت کررہی ہیں ۔ محکمہ آثار قدیمہ کو اس سمت خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ (4) جوبلی ہال پر ایک نیا بورڈ نصب کیا گیا ہے جس پر اردو کے ساتھ لاپرواہی واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے کیوں کہ ’ تلنگانہ قانون ساز کونسل ‘ میں ’ ن ‘ کا نقطہ ہی نہیں ہے ۔ کونسل سے ’ ن ‘ ہی غائب ہوگیا ہے ۔۔