شہر کے امدادی اسکولس پر لینڈ گرابرس کی نظریں

تجارتی مراکز میں تبدیل کرنے کی کوششیں ، تحفظ کے لیے شہریوں کو آگے آنے کی ضرورت
حیدرآباد ۔ 26 اگسٹ (سیاست نیوز ) تعلیم یافتہ شہری اگر اب بھی خاموش رہے تو شہر میں تعلیم کو تجارت بننے اور تعلیمی مقاصد کیلئے استعمال کی جانے والی اراضیات کو کوئی بچا نہیں پائے گا۔ شہر میں سرکاری اسکولوں کی تباہی کے بعد اب لینڈ گرابرس کی نظریں ان امدادی مدارس کی جانب اٹھنے لگی ہیں جو وسیع و عریض اراضیات پر قائم ہیں۔ شہر میں چلائے جانے والے سرکاری مدارس کی جائیدادوں کو حاصل کرنے اور ان مدارس کی جگہ تجارتی مراکز کی تعمیر اور تجارتی مدارس کو فروغ کا بہترین موقع فراہم کرنے کے بعد سرکاری مدارس کی تباہی کے ذمہ دار اب ان کالجس و تعلیمی ادرۂ جات کی جانب متوجہ ہو چکے ہیں جو مختلف اداروں و تنظیموں کی جانب سے امدادی تعلیمی ادارۂ جات کے طور پر چلائے جاتے ہیں۔حیدرآباد کے سرکاری اسکولوں کو اہل ہوس کی نظر بد نے کہیں کا نہیں رکھا بلکہ کئی سرکاری اسکولوں کی جگہ اب ان کے نشان بھی موجود نہیں ہے۔ پرانے شہر کے علاقہ چیلہ پورہ سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ شہری جناب محمد عبدالحمید نے بتایا کہ شہر حیدرآباد تعلیم وتہذیب کا گہوارہ ہوا کرتا تھا اور جگہ جگہ سرکاری اسکولوں کی موجودگی کے سبب شہریوں میں ذوق تعلیم بھی تھا لیکن بتدریج زبان کے ساتھ نا انصافی اور پھر تعلیمی ادارۂ جات کی تباہی نے تعلیم کو تجارت میں تبدیل کردیا لیکن بھلا ہو ان لوگوں کا جنہوں نے وسیع و عریض اراضیات پر سرکاری امداد سے چلنے والے تعلیمی ادارۂ جات قائم کئے اور ان جائیدادوں کو نا قابل فروخت بنا دیا جس کے سبب اب تک کچھ تعلیمی ادارے محفوظ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرکاری اسکولوں کی تباہی کے بعد اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اس کے بعد امدادی مدارس کو نشانہ بنایا جائے گا اور اب یہ خدشات پورے ہونے لگے ہیں۔ تعلیمی ادارۂ جات کی تباہی اور ان کو مقفل کیا جانا غریب اور متوسط طبقہ کو تعلیم سے محروم کئے جانے کے مترادف ہے۔ اسی طرح یاقوت پورہ کالونی کے رہنے والے ایک سرکاری ملازم نے بتایا کہ جو لوگ اوقافی جائیدادوں کو اپنی قرار دیتے ہوئے انہیں فروخت کر سکتے ہیں ان سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ تنظیموں و اداروں کی جائیدادوں کو چھوڑ دیں گے؟ ملت اسلامیہ کے ہاتھ میں قلم اور انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے کروڑہا روپئے خرچ کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ زمانۂ قدیم میں قائم کئے گئے ان امدادی تعلیمی ادارۂ جات کے تحفظ پر بھی توجہ مرکوز کریں کیونکہ وہ آج کے دور کے اعتبار سے عمارتیں تعمیر کر رہے ہیں لیکن برسہا برس قبل بھی ان تمام ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی نے حیدرآباد کے نونہالوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے مقصد سے ان جائیدادوں پر تعلیمی ادارے قائم کئے تھے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن لوگوں کو ان تعلیمی ادارۂ جات کے تحفظ کیلئے آگے آتے ہوئے انہیں ہیریٹیج کا موقف دلوانے کی کوشش کرنا چاہئے انہی سے ان قدیم تعلیمی ادارۂ جات کو خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔