پرانا شہر میں بے شمار درگاہیں اور آستانے ہیں ۔ بعض درگاہوں کی گنبدوں کو ماہرین آثار اور مورخین فن تعمیر کی شاہکار اور تاریخی اعتبار سے بہت اہم قرار دیتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ اور وقف بورڈ کی بے حسی اور مجرمانہ غفلت کے نتیجہ میں ان درگاہوں کی خوبصورت بلند و بالا گنبدیں اپنی کشش کھو رہی ہیں اگر ان پر اب بھی توجہ نہ دی گئی تو وہ ملبہ میں تبدیل ہوسکتی ہیں ۔ پہلی تصویر میں آپ چھتری ناکہ میں واقعہ درگاہ حضرت فیروز شاہ باباؒ کی گنبد دیکھ سکتے ہیں ۔ فرقہ پرستوں نے چاروں طرف سے اس کے راستے بند کر کے تقریبا دیڑھ ایکڑ اراضی پر قبضہ کرلیا ۔ اب صرف 300 گز اراضی بچ گئی ہوگی ۔ دوسری تصویر درگاہ حضرت میر قطب الدین نعمت اللہ دشتگی ؒ مغل پورہ کی ہے 400 سال سے زائد قدیم اس گنبد کی دیکھ بھال کا کوئی انتظام نہیں ۔ یہ درگاہ کے اطراف آٹو گیاریج کی طرح استعمال کیا جارہا ہے ۔ تیسری تصویر میں ضیا گوڑہ میں واقع حنان خان منان خان گنبد انتہائی مخدوش حالت میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ قطب شاہی دور کی اس گنبد کی گچی اور پتھر گر رہے ہیں ۔ وقف ریکارڈ میں ہونے کے باوجود وقف بورڈ کے عہدیدار نے کبھی اس گنبد پر توجہ دینا گوارا نہیں کیا ۔ چوتھی تصویر کاروان میں واقع حضرت جعفر باباؒ کی درگاہ اس مزار پر جو گنبد ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے لیکن محکمہ آثار قدیمہ اس سے بھی غفلت برتا ہوا ہے ۔ اس درگاہ کے تحت 5610 مربع گز اراضی ہے لیکن تقریبا اراضی پر قبضے ہوچکے ہیں ۔ اس درگاہ کے تحت ایک مسجد بھی ہے ۔ غیروں کے قبضہ میں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وقف بورڈ محکمہ آثار قدیمہ اور بلدیہ حرکت میں آئے ۔ ویسے بھی جی ایچ ایم سی کے پاس تاریخی آثار کی تزئین نو اور مرمت کے لیے 150 کروڑ روپئے کا بجٹ ہے ۔۔