حیدرآباد 9 فبروری (ابو ایمل) معاشرہ میں بہتری کیلئے خواتین کلیدی رول ادا کرتی ہیں۔ ماں، بیوی، بہن، بیٹی اور بہو کی حیثیت سے خواتین گھروں کو جنت بناسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاح معاشرہ کی ہر تحریک میں ان کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ جس معاشرہ میں سمجھدار، تعلیم یافتہ اور قوم و ملت کا درد رکھنے والی خواتین ہوں اُس معاشرہ کو ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہندوستان کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ برصغیر کے دیگر ممالک کی طرح یہاں مردوں کی اجارہ داری ہے اور خواتین کا کسی بات پر بس نہیں چلتا لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے اگر صنف نازک اُٹھ کھڑی ہوجائے تو چیخنے چلاّنے والے بیٹھ جاتے ہیں۔ اپنی گود میں پلنے والی نسل پر خصوصی توجہ مرکوز کرے تو زندگی کے ہر شعبہ میں نوخیز نسل چھا جاتی ہے اور اگر کوئی مشن و مقصد لئے آگے بڑھے تو قوم کی ترقی کی راہیں خود بخود کھلنی شروع ہوجاتی ہیں۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ معاشرہ میں صحتمند انقلاب برپا کرنے اور اصلاح کا آغاز گھروں سے کیا جائے۔ قارئین تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ معاشرہ کے بنانے اور بگاڑنے میں عورتوں نے اہم کردار ادا کیا۔ خواتین کے باعث ہی معاشروں میں بُرائیوں کا خاتمہ ہوا۔ آج ہمارے مسلم معاشرہ میں بھی ایسے ہی صالح انقلاب کی ضرورت ہے۔ شادی بیاہ سے لے کر ہماری چھوٹی سے چھوٹی تقریب میں بیجا اسراف، بیجا رسومات اور ہر قسم کی بُرائیوں سے بھری ہوتی ہیں۔ لیکن ان افسوسناک حالات کے باوجود اب بھی کئی ایسی خداترس، رحم دل اور ملّی جذبہ رکھنے والی خواتین ہیں جو اپنے عملی اقدامات کے ذریعہ معاشرہ میں پھیلی بُرائیوں کے خاتمہ اور مصیبت زدوں کی مدد کیلئے اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ آج ہم آپ کو ایسی ہی ایک خاتون کے بارے میں بتارہے ہیں جنھوں نے ایک ایسا کام کیا
جس کے بارے میں لوگ سوچتے ہی رہ گئے لیکن اپنے قدم آگے بڑھانے سے قاصر رہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ٹولی چوکی کی رہنے والی معزز و تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھنے والی اس خاتون نے اپنے فرزند کی شادی کے موقع پر بطور تحفہ دی گئی تمام رقم مظفر نگر فسادات میں تباہ و برباد ہوئے اپنے مسلم بھائی بہنوں کیلئے مکانات کی تعمیر کیلئے پیش کردی۔ واضح رہے کہ ہمارے شہر میں شادی بیاہ و دیگر تقاریب کے موقع پر خوبصورت لفافوں میں رکھ کر بطور تحفہ دولہے اور دولہن کے والدین کو دیئے جانے کی روایت ہے اور ٹولی چوکی کی ساکن اس خاتون نے اپنے بیٹے کی شادی میں اُنھیں دیئے گئے تمام رقمی لفافے بناء کھولے اس تنظیم کے حوالے کردیئے جو مظفر نگر فسادات کے متاثرین کے مکانات تعمیر کروارہی ہے۔ آپ اور ہم نے بطور عطیات اپنے زیورات نقد رقم اور مختلف اشیاء ادویات ملبوسات وغیرہ دیئے جانے کے بارے میں سنا اور دیکھا ہے لیکن یہ شائد پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی خاتون نے مصیبت زدہ مسلم بھائی بہنوں کیلئے بیٹے کی شادی میں بطور تحفہ وصول ہوئی رقم پر مشتمل لفافے پیش کردیئے ہوں۔ راقم الحروف کو اس خاتون نے بتایا کہ وہ کسی شہرت یا عزت کیلئے یہ قدم نہیں اُٹھایا بلکہ اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی خوشنودی کیلئے مظفر نگر متاثرین کی مدد کا فیصلہ کیا۔ ہاں اگر دوسروں کو اس سے ترغیب ملتی ہے تو اس بارے میں رپورٹ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ اترپردیش کے ضلع مظفر نگر میں پھوٹ پڑے فسادات میں مظلوم و نہتے مسلمانوں کو چُن چُن کر نشانہ بنایا گیا۔ ان کی املاک کو لوٹا گیا، ماؤں کے سامنے کمسن لڑکیوں اور جوان بیٹیوں کی عصمتیں تار تار کی گئیں۔ بیویوں، بیٹیوں کے سامنے شوہروں اور باپوں کو قتل کیا گیا۔
ان لرزہ خیز فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 60 لوگ مارے گئے جبکہ غیر سرکاری اعداد و شمار میں شہید ہونے والوں کی تائید بہت زیادہ بتائی گئی۔ فسادات کے نتیجہ میں مظفر نگر کے ہزاروں مسلمان بے گھر ہوگئے۔ زائداز 50 ہزار بے گھر مسلمانوں کو انتہائی ابتر ریلیف کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ ان مظلومین کی آنکھوں سے بہتے آنسو یقینا یہ سوال کررہے تھے کہ بتاؤ ہمارے اِن بچوں کا کیا قصور تھا۔ ان بچوں نے کس کا کیا بگاڑا تھا یہ تو اپنی ماؤں کی گود میں کھیل رہے تھے۔ اُس خاتون کے مطابق اُنھوں نے اپنے بیٹے کی شادی میں جوڑے گھوڑے کی رقم حاصل کرنے سے گریز کیا اور مہر بھی نقد ادا کیا گیا۔ جبکہ جہیز لینے سے بھی صاف انکار کیا۔ غرض اس خاتون نے اپنے منفرد جذبۂ ہمدردی کے ذریعہ ایک مثال قائم کی اور دنیا کو بتادیا کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں انسان پریشان ہوتے ہیں تو حیدرآبادی عوام فکرمند ہوجاتے ہیں۔ بارگاہِ رب العزت میں جہاں وہ ہاتھ اُٹھائے مصیبت زدوں کیلئے دعائیں کرتے ہیں وہیں اُن ہاتھوں سے پریشان حال لوگوں کی مدد بھی کرتے ہیں۔