معاوضہ کے حصول کیلئے چیف اگزیکیٹیو آفیسر کی مساعی،جائیدادوں کا تحفظ اور آمدنی میں اضافہ اولین ترجیح، محمد اسد اللہ سے بات چیت
حیدرآباد ۔ 7۔ اکتوبر (سیاست نیوز) تلنگانہ میں اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور بورڈ کی آمدنی میں اضافہ کیلئے چیف اگزیکیٹیو آفیسر محمد اسد اللہ کی جانب سے شروع کئے گئے اقدامات کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ محکمہ مال سے تعلق رکھنے والے محمد اسد اللہ نے وقف بورڈ کے چیف اگزیکیٹیو آفیسر کا عہدہ سنبھالنے کے 5 ماہ میں نہ صرف ناجائز قابضین کے خلاف سخت اقدامات کئے بلکہ سرکاری اداروں کی جانب سے حاصل کردہ اوقافی اراضی کا معاوضہ حاصل کرنے کے اقدامات کئے ہیں۔ انہوں نے شہر گریٹر حیدرآباد کے حدود میں 49 ایسی اوقافی جائیدادوں کی نشاندہی کی ہے جنہیں گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن اور دیگر سرکاری محکمہ جات نے حاصل کیا۔ ان جائیدادوں کی حاصل کردہ اراضی کے بارے میں سروے کے ذریعہ اراضی کے معاوضہ کو طئے کیا جائے گا۔ چیف اگزیکیٹیو آفیسر نے شہر کی 6 ایسی قیمتی اوقافی جائیدادوں کی نشاندہی کی جن کی اراضی گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن نے مختلف امور کیلئے حاصل کرلی ہے لیکن اس کا معاوضہ ابھی تک ادا نہیں کیا گیا۔ محمد اسد اللہ نے ان اراضیات کے سروے کے ذریعہ موجودہ مارکٹ قیمت کے اعتبار سے 115 کروڑ 43 لاکھ 19 ہزار 337 روپئے طئے کئے ہیں جو مجلس بلدیہ کی جانب سے وقف بورڈ کو ادا شدنی ہے۔ انہوں نے اس رقم کے حصول کیلئے کمشنر مجلس بلدیہ کو مکتوب روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن وقف بورڈ کی 115 کروڑ سے زائد مالیت کی اراضی کو حاصل کرچکا ہے لیکن وقف بورڈ کے کامپلکس کیلئے 4 کروڑ 60 لاکھ روپئے کی بلڈنگ فیس معاف کرنے تیار نہیں۔ حکومت نے بلڈنگ فیس معاف کرتے ہوئے باقاعدہ احکامات جاری کئے لیکن تین ماہ گزرنے کے باوجود کمشنر گریٹر حیدرآباد حکومت کے احکامات کو قبول کرنے تیار نہیں ہے۔ ان حالات میں وقف بورڈ نے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن پر 115 کروڑ روپئے کی ادائیگی کا دعویٰ پیش کیا ہے۔ چیف اگزیکیٹیو آفیسر محمد اسد اللہ نے جن اوقافی اراضیات کی نشاندہی کی ہے، ان میں مقبرہ عماد الملک و عقیل جنگ (یلا ریڈی گوڑہ) ، مسجد اہلحدیث چلچل گوڑہ ، عاشور خانہ نعل مبارک کلاں بیگم پیٹ ، درگاہ حضرت تکیہ فیض اللہ شاہ چادر گھاٹ، بہادر الدولہ وقف نامپلی اور مقبرہ مسجد بی صاحبہ پنجہ گٹہ شامل ہیں جن کی اراضیات کو مجلس بلدیہ نے سڑک کی توسیع اور دیگر کاموں کیلئے حاصل کرلیا۔
مارکٹ ویلیو کے اعتبار سے اس اراضی کی مالیت 115 کروڑ روپئے ہوتی ہے۔ ریاستی حکومت کی جانب سے منظوری حاصل کرتے ہوئے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کو رقم کی ادائیگی کیلئے باقاعدہ مکتوب روانہ کیا جائے گا۔ ایسے وقت جبکہ وقف بورڈ کی آمدنی دن بہ دن گھٹتی جارہی ہے۔ چیف اگزیکیٹیو آفیسر نے آمدنی میں اضافہ کیلئے جس مساعی کا آغاز کیا ، اس کا عوامی حلقوں میں خیر مقدم کیا جارہا ہے۔ اگر مجلس بلدیہ 115 کروڑ روپئے ادا کرتی ہے تو وقف بورڈ کو حکومت کی گرانٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی اور بورڈ خود مکتفی ہوجائے گا ۔ بورڈ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی چیف اگزیکیٹیو آفیسر نے اس طرح قیمتی اراضیات کی نشاندہی کرتے ہوئے سرکاری اداروں سے اراضی کا معاوضہ حاصل کرنے کی مہم شروع کی ہے۔ چونکہ جناب اسد اللہ کا تعلق محکمہ مال اور لینڈ سروے ڈپارٹمنٹ سے ہے، لہذا انہوں نے اوقافی جائیدادوں کے ریکارڈ کو ریونیو ریکارڈ کے مطابقت میں تیار کرنے کی کارروائی شروع کی ہے۔ تاکہ اوقافی جائیدادیں ریونیو ریکارڈ میں شامل کی جائیں اور ہمیشہ کیلئے ان کا تحفظ ہوسکے۔
ریونیو ریکارڈ میں کئی اوقافی جائیدادیں سرکاری اراضی کی حیثیت سے شامل ہیں جس کے سبب ناجائز قابضین ان کی خرید و فروخت اور باقاعدہ رجسٹریشن کرانے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں شہر اور اس کے مضافاتی علاقوں میں کئی کروڑ ہا روپئے مالیتی اوقافی اراضیات کے تحفظ کیلئے وقف بورڈ نے کارروائی کا آغاز کیا ہے اور قابضین کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی۔ جناب اسد اللہ نے بتایا کہ وہ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور ان کی ترقی کے جذبہ کے ساتھ وقف بورڈ میں خدمات انجام دینے کیلئے راضی ہوئے ہیں۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے محکمہ مال سے ان کی خدمات وقف بورڈ میں منتقل کرنے کیلئے کافی دلچسپی لی تھی۔ محمد اسد اللہ نے کہا کہ وہ جب تک بھی وقف بورڈ میں برقرار رہیں گے، اس کی کارکردگی میں شفافیت پیدا کرنا ان کی اولین ترجیح ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ عملہ کی کمی کے باوجود وہ وقف بورڈ میں مسائل کی عاجلانہ یکسوئی کی کوشش کر رہے ہیں اور درمیانی افراد بروکرس کے رول کو کم کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اوقافی جائیدادوں کے متولی چاہے وہ سیاسی اثر و رسوخ کے حامل کیوں نہ ہوں منشاء وقف کے خلاف اقدامات کرنے پر ان کے خلاف کارروائی سے گریز نہیں کیا جائے گا ۔ چیف اگزیکیٹیو آفیسر نے اوقافی ریکارڈ کو محفوظ کرنے کیلئے ڈیجیٹلائیزیشن اور ریکارڈ کے انگریزی ترجمہ کا کام شروع کیا ہے ۔ اس سلسلہ میں بعض ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے سلسلہ میں انہیں حکومت اور ماتحت عہدیداروں سے مکمل تعاون حاصل ہورہا ہے اور انہیں امید ہے کہ اگر اسی طرح سنجیدگی سے اقدامات کئے گئے تو نہ صرف اوقافی جائیدادوں کا تحفظ ممکن ہوگا بلکہ وقف بورڈ کی آمدنی میں زبردست اضافہ ہوگا۔ وقف بورڈ اس آمدنی کو مسلمانوں کی بہبود پر خرچ کرسکتا ہے۔