ملت اسلامیہ کی خاموشی خطرناک، شراب خانوں کے قیام پر بھی حکومت کا غور
حیدرآباد 19 جون (سیاست نیوز) شہر حیدرآباد کے متمدن معاشرہ و تہذیب کے تحفظ کے لئے فوری طور پر اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں۔ شہر میں نہ صرف علماء و مشائخین بلکہ سرزمین دکن سے محبت رکھنے والے ہر فرد پر یہ لازمی ہوچکا ہے کہ وہ شہر کی تہذیب کی حفاظت کے لئے عملی اقدامات کی جانب متوجہ ہوں۔ حیدرآباد کی تہذیب و تمدن و شائستہ گفتگو ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی اپنی منفرد اہمیت رکھتی ہے لیکن زمانہ کی رفتار سے شہر حیدرآباد کو ہم آہنگ کرنے کے نام پر اِس شہر کی تہذیب کو جو نقصان پہنچایا جارہا ہے اُسے روکنے کی ضرورت ہے۔ شہر حیدرآباد کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو شہر حیدرآباد عالمی نقشہ پر نمایاں ہونے کی وجہ اِس شہر کے تہذیب و تمدن کے علاوہ شہر میں موجود جامعہ عثمانیہ کا تعلیمی معیار، شہر کی خوبصورت ترین بلند و بالا عمارت چارمینار اور اسی کے دامن میں موجود وسیع و عریض مکہ مسجد اور قدیم قطب شاہی فصیل بند قلعہ گولکنڈہ رہے ہیں۔ لیکن اب اِس شہر کو عصری دوڑ میں شامل کرنے کے لئے جو ادارے قائم کئے جارہے ہیں اُنھیں دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شہر کی تہذیب تباہی کے دہانے پر پہونچ چکی ہے۔ چند برسوں قبل شہر حیدرآباد میں بدنام زمانہ شراب خانہ ’’پلے بوائے‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا اور پلے بوائے کلب کے قیام کے بعد عوام کی جانب سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا اور نہ ہی ذمہ داران ملت اسلامیہ اور عمائدین ملت نے حکومت کی جانب سے پلے بوائے کلب کو دی گئی اجازت کے خلاف کوئی احتجاج درج کروایا۔ پلے بوائے کلب کے آغاز اور بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہنے کے بعد شہر کی حالت میں تیزی سے تبدیلی رونما ہوتی جارہی ہے اور حکومت کی جانب سے شہر میں مزید اس طرح کے کلبس کو اجازت دیئے جانے پر غور کیا جانے لگا ہے۔ پڑوسی ریاست کرناٹک کے علاوہ ہندوستان میں قومی سطح پر جسم فروشی کو قانونی موقف دینے کے متعلق غور کرنے کے لئے وزراء کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اور کمیٹی نے کسی حد تک لائسنس یافتہ جسم فروشی کے مراکز چلانے کی حمایت بھی کردی تھی۔ اس صورتحال پر بھی ملت اسلامیہ کی جانب سے اختیار کردہ خاموشی سماج کی تباہی کا موجب بن سکتی ہے اور آئندہ نسلوں کیلئے یہ صورتحال انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ شہر حیدرآباد کا تہذیبی ڈھانچہ بڑی حد تک مذہبی ڈھانچہ سے مربوط نظر آتا ہے چونکہ حیدرآباد میں نہ صرف علم کو اہمیت فراہم کی گئی ہے بلکہ پردہ اور اخلاقیات پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی رہی ہے۔ لیکن اب جس صورتحال کا سامنا اِس شہر حیدرآباد و ریاست تلنگانہ کو ہے وہ انتہائی خطرناک ہوچکی ہے چونکہ حکومت شہر حیدرآباد کو اُن شہروں کی فہرست میں دیکھنا چاہتی ہے جوکہ عروس البلاد کہلاتے ہیں اور جن شہروں میں کہیں رات نہیں ہوتی بلکہ دن اور رات یہ شہر جگمگاتے رہتے ہیں۔ ریاستی حکومت نئی آبکاری پالیسی کے مطابق حکومت حیدرآباد میں عالمی سطح کے شراب خانوں کے قیام کی اجازت کے متعلق غور کررہی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ شراب خانوں کو رات دیر گئے تک کھلا رکھنے پر بھی غور کیا جارہا ہے تاکہ ریاست کی آمدنی میں اضافہ ہو اور ریاست میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کو یقینی بنایا جاسکے۔ بین الاقوامی صنعت کاروں کو سہولتوں کی فراہمی کے علاوہ شہر کو عالمی طرز کے شہر میں تبدیل کرنے کے منصوبے میں حیدرآباد کی تہذیب کے کھو جانے کے خدشات پیدا ہورہے ہیں۔ اِن خدشات کو حکومت اپنے طور پر دور نہیں کرسکتی لیکن حیدرآباد کے تہذیب و تمدن کی حفاظت کیلئے خود حیدرآبادی عوام حکومت کو ایسے کسی اقدام سے باز رکھنے کیلئے اپنے منتخبہ نمائندوں کے توسط سے متنبہ کرسکتے ہیں۔