شہر میں نقد مہر ادا کرنے والے افراد کی تعداد صرف 10 فیصد ۔ قاضی صاحبان

مہر کے حوالے سے مسلمانوں میں شعور بیدار کرنا علماء و خطباء کی ذمہ داری
حیدرآباد ۔ 24 جنوری (نمائندہ خصوصی) قرآن پاک کے سورہ النساء میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’اپنی بیویوں کے مہر خوش دلی سے ان کو ادا کرو‘‘ لیکن یہ انکشاف باعث تعجب و حیرت ہے کہ مسلمانوں میں آج صرف 10 فیصد افراد ہی نقد مہر ادا کرتے ہیں بقیہ 90 فیصد کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ لڑکے والے گھوڑے جوڑے کی رقم (جو سراسر ناجائز اور حرام ہے) تو نقد لے لیتے ہیں لیکن مہر (جو شرعی حکم ہے) ادھار رکھتے ہیں۔ ایک سروے میں قاضی صاحبان سے ملاقاتیں کی گئیں تو تقریباً قاضیوں نے متفقہ طور پر کہا کہ شہر میں صرف 10 فیصد ہی افراد ایسے ہیں جو مہر کی رقم نقد ادا کرتے ہیں اور اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جب زوجین کے درمیان معاملہ بگڑ کر بات خلع یا طلاق تک پہنچتی ہے تو اس وقت مہر کے تعلق سے فریقین کے درمیان بحث و تکرار شروع ہوجاتی ہے جو قابل شرم ہے۔ ویمن پولیس اسٹیشن کے ایک انسپکٹر نے بتایا کہ جب طلاق اور خلع کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس وقت لڑکی مہر کا مطالبہ کرتی ہے اور اس معاملے میں بحث طول پکڑ لیتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نکاح سے پہلے ہی مہر کا تعین کرلینا چاہئے اور نکاح کے فوراً بعد اس کی ادائیگی کردینی چاہئے۔ یہی اللہ اور اس کے رسول ؐ کا فرمان ہے اور یہی لڑکی کے حق کا تقاضہ ہے۔ البتہ اس سلسلے میں مشیرآباد کے مسلمان بہت حد تک قال ستائش ہیں جہاں قریشی برادری کے 80 فیصد افراد نقد رقم ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ حضرات شادیوں میں غیرضروری لوازمات سے بھی احتراز کرتے ہیں۔ رشتہ جوڑنے والے ایک شخص نے بتایا کہ آج کل گھوڑے جوڑے کی رقم جتنی ہوتی ہے اس کی آدھی رقم مہر کیلئے متعین کی جارہی ہے۔ اکثر ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ شادی کے اسٹیج پر نکاح سے قبل رجسٹری کارروائی کرتے ہوئے قاضی مہر کی مقدار کے حوالے سے جب دریافت کرتے ہیں تو لڑکی والے لڑکے والے کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور وہیں کچھ دیر کی بحث و تکرار کے بعد مہر طئے ہوتا ہے۔ مہر جیسے اہم کام کو عین نکاح کے وقت اور اتنی جلد بازی میں طئے کیا جاتا ہے کہ یہ کہنا بھی مشکل ہیکہ صحیح تعین ہوتا ہے کہ نہیں؟ علماء کرام کا کہنا ہیکہ کوئی نکاح بغیر مہر کے نہیں ہوتا اور نکاح سے قبل ہی مہر کا تعین عمل میں آنا چاہئے اور مہر کی مقدار نہ اتنی کم ہو کہ مذاق بن کر رہ جائے اور نہ اتنی زیادہ ہو کہ ادائیگی نا ممکن ہوجائے۔ المیہ یہ ہیکہ 90 فیصد افراد جو یومیہ کما کر زندگی گذارتے ہیں انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ مہر بھی کوئی چیز ہے۔ مہر کی ر قم نقد ادا کرنے والوں میں اکثر مالدار طبقہ بیرون ملک مقیم نوجوان یا تاجر طبقہ شامل ہے ۔ اس ضمن میں ان علماء کرام کی ذمہ داری ہوتی ہے جو امام و خطیب ہیں وہ اپنے خطبہ میں مہر کو بھی موضوع بنائیں اور عوام میں اس حوالے سے شعور بیدار کریں تاکہ اس اہم ترین امر کے تئیں غفلت نہ برتی جائے۔