معروف مقررین و خطیب حضرات کے علاوہ منتظمین بھی فکر مند۔ سوشیل میڈیا سے استفادہ کرنے کے رجحان میں زبردست اضافہ
محمد مبشر الدین خرم
حیدرآباد۔25اپریل۔ اولیاء اللہ کی سر زمین ‘ علم و فن والے شہر حیدرآباد میں مذہبی جلسوں میں شرکت اور ان کی سماعت کے رجحان میں ریکارڈ گراوٹ دیکھی جانے لگی ہے اور لوگ مذہبی جلسوں سے خود کو دور رکھنے لگے ہیں جس کے نتیجہ میں نوجوان نسل تو ان جلسہ گاہوں کا بھی رخ نہیں کر رہی ہیں جبکہ سر زمین و سامعین حیدرآباد میں اگر کسی مقرر یا مولوی کو پسند کرتے تو ملک بھر میں ان مفتیان و مقررین کو مدعو کرنے ہر شہر کے منتظمین کوشش کرتے تھے لیکن اب شہر حیدرآباد کے مذہبی جلسوں میں شرکت کو اعزاز سمجھنے والے علماء و اکابرین خود اس فکر میں مبتلاء ہو گئے ہیں کہ آخراس شہر کے عوام کو کیا ہو گیا ہے اور کیوں یہ مذہبی جلسوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ عام طور پر دو طرح کے جلسوں میں عوام کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے جس میں ایک تو مذہبی جلسہ اور دوسرے سیاسی جلسہ ہوا کرتے ہیں لیکن سیاسی جلسو ںکے مجمع میں کوئی کمی رونما نہیں ہوئی بلکہ مذہبی جلسوں میں سامعین کی تعداد میں بتدریج گراوٹ دیکھی جانے لگی ہے جبکہ ان جلسوں کی تشہیر نہ صرف اخبارات کے ذریعہ ہورہی ہے بلکہ جلسہ کے متعلق اطلاعات گشتی تشہیر اور سوشل میڈیا پر بھی جا رہی ہے اس کے باوجود جلسہ گاہ میں سامعین نہ ہونے کے سبب صورتحال پر تشویش ہے اور خود منتظمین پریشان ہیں کہ عوام کو ان جلسوں سے دلچسپی کیوں ختم ہوتی جا رہی ہے ؟ چند برس قبل تک مقدس شب کے دوران جامع مسجد چوک اور خلوت میدان کے جلسہ کو کافی اہمیت حاصل ہوا کرتی تھی لیکن مولانا محمد حمید الدین عاقل حسامی ؒ کے سانحہ ارتحال کے بعد جامع مسجد چوک کے اجتماع پر فرق پڑا اسی طرح خلوت میدان کے جلسہ عام میں بھی گذشتہ برسوں کے دوران سامعین کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ گذشتہ شب جلسہ کے شرکاء سے اس سلسلہ میں تبادلہ خیال پر جن حالات کا انکشاف ہوا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہیں کیونکہ نئی نسل کا مکمل انحصار انٹرنیٹ کے ذریعہ حاصل ہونے والی دینی معلومات پر ہونے لگا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ نوجوان دین سے دور ہو رہے ہیں لیکن وہ انٹرنیٹ کے ذریعہ ایسے علماء اکرام کو سننے لگے ہیں جو انہیں پسند ہیں ۔ شہر حیدرآباد میں کسی عالم دین کی تقریر کامیاب ہونے پر اس عالم دین کو ملک کے مختلف شہروں میں شہرت حاصل ہوتی تھی لیکن اب شہر حیدرآباد کے جلسوں سے شہرت حاصل کرنے والے شہرۂ آفاق شخصیات حیدرآباد میں جلسہ کے نام سے ہی انکار کرنے لگے ہیں کیونکہ ان جلسوں میں انہیں سامعین نہیں مل پا رہے ہیں۔ گذشتہ چند ماہ قبل نئے شہر کے ایک وسیع وعریض میدان میں منعقدہ جلسہ سے اتر پردیش کے ایک شعلہ بیان مقرر نے مخاطب کیا تھا اور اس جلسہ کے سلسلہ میں کافی تشہیر بھی کی گئی تھی لیکن اس میں بھی سامعین کی تعداد خاطر خواہ نہیں رہی اور اس جلسہ میں خود مقرر نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ وہی حیدرآباد ہے جس میں ان کی آمد پر ہزاروں کا مجمع ہوا کرتا تھا؟ یہی صورتحال مقدس شب کے جلسوں کی ہونے لگی ہے اور اس کے علاوہ ماہ ربیع الاول کے دوران منعقد ہونے والے مخصوص جلسہ رحمت اللعلمین کے علاوہ کئی جلسوں میں عوام برائے نام رہنے لگے ہیں ۔ شہر میں سب سے قدیم جلسہ رحمت اللعلمین کل ہند مجلس تعمیر ملت کے زیر اہتمام منعقد کیا جا تا ہے لیکن اس جلسہ میں بھی سامعین کی تعداد میں بتدریج گراوٹ ریکارڈ کی جا رہی ہے جو کہ آئندہ نسلوں کے لئے تشویش کا موجب ثابت ہوگی۔ جلسوں کی سماعت کے رجحان میں کمی کے لئے مختلف امور کو ذمہ دار قرار دیا جانے لگا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ جلسہ میں شرکت سے بہتر یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعہ کسی کی تقریر سماعت کرلی جائے۔ جناب محمد علی ساکن مصری گنج نے بتایا کہ جلسوں میں نوجوانو ںکی کمی دینی رجحان سے دوری کی علامت تصور کی جا رہی ہے لیکن اگر باریک بینی سے اس بات کا جائزہ لیا جائے تو نوجوان دور تو نہیںہو رہے ہیں لیکن جلسوں سے خود کو دور رکھنے لگے ہیںجس کی بنیادی وجہ ان کی اپنی رائے میں مسلکی اختلافات پر مبنی تقاریر ہیںجن کے متعلق نوجوان نسل میں تیزی سے شعور اجاگر ہونے لگاہے۔ اسی طرح جنام سید حامد ساکن مانصاحب ٹینک نے بتایا کہ آج بھی ان جلسوں میں عوام کی کثیر تعداد دیکھی جا رہی ہے جن میں دوسرے مسلک کے ماننے والوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا ان علماء کو سننے والوں کی تعداد اب بھی کافی ہے جو علماء معلوماتی تقاریر کے ذریعہ اپنے سامعین کو علم کی دولت سے سرفراز کرتے ہیں۔ سعید آباد کے ایک نوجوان نے جو خلوت میدان میں جلسہ میں شرکت کر رہا تھا نے دریافت کرنے پر بتایا کہ وہ بچپن سے اپنے والد کے ساتھ ان جلسوں میں شرکت کیا کرتا رہا ہے اور اب بھی اس معمول میں کوئی تبدیلی نہیں لائی ہے ۔ نوجوان کا کہنا ہے کہ ان جلسوں سے زیادہ معلومات انٹرنیٹ کے ذریعہ حاصل ہونے لگی ہیں لیکن ان جلسوںمیں شرکت کا معمول وہ برقرار رکھنا چاہتا ہے اسی لئے جلسہ میں شرکت کرنے پہنچا۔ نوجوانوں کی رائے ہے کہ مسلکی اختلافات پر مبنی تقاریر کو نوجوان نسل پسند نہیں کر رہی ہے اور جو نوجوان جس عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے اس عقیدہ کے بہترین عالم کو بذریعہ یو ٹیوب دیکھ اور سن رہا ہے اسی لئے انہیں مقامی جلسوں میں شرکت سے دلچسپی ختم ہوتی جا رہی ہے۔انٹرنیٹ کے ذریعہ نوجوان نسل انگریزی میں خطاب کرنے والی عالمی شہرت یافتہ شخصیات کے خطابات سننے لگی ہے جن میں الشیخ نوح کیلر شاذلی ‘ مفتی اسمعیل بن موسی مینک‘ شیخ حمزہ یوسف‘ شیخ محمد الیعقوبی‘ شیخ محمد بن یحیی النینوی کے خطابات کے علاوہ دیگر علماء کے خطاب شامل ہیں اسی طرح اردو خطابات کی سماعت کے لئے نوجوان نسل میں مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی ‘ علامہ محمد طاہر القادری‘ مولانا طارق جمیل ‘ مولانا کوکب نورانی‘ مولانا مفتی محمد اکمل‘ مولانا محمد رضا مصطفوی کے علاوہ دیگر موجود ہیں جنہیں آن لائن سنا اور پسند کیا جانے لگا ہے ۔اس کے علاوہ مولانا ڈاکٹر اسرار احمد‘ڈاکٹر ارشد بشیر مدنی‘ ڈاکٹر ذاکر نائک ‘ انیس خان سلفی اور شیخ توصیف الرحمن کو سننے والے علحدہ ہیں۔انٹرنیٹ کے اس دور میں مذہبی جلسوں سے زیادہ معلومات واٹس اپ گروپوں سے ہو رہی ہے ایسا تصور کیا جا رہا ہے اور کئی مقامات پر مقررین ان واٹس اپ میسیج کے حوالے بھی دینے لگے ہیں جس کے سبب نوجوان نسل میں واٹس اپ کے ذریعہ پھیلائے جانے والے پیغام کے متعلق یہ تصور پیدا ہونے لگا ہے کہ یہ واٹس اپ پر موصول ہونے والا ہر پیغام سچ ہوتا ہے۔ شہر حیدرآباد میں مذہبی جلسوں میں سامعین کی قلت کا جو خلاء پیدا ہو رہا ہے اسے پر کرنے کے لئے فوری اقدامات نہ کئے جانے کی صورت میں حالات مزید ابترہونے لگیں گے اور وہ دین بیزاری کی سمت مائل ہونے لگیں گے۔