گلی گلی شجرکاری ضروری، کا ربن کے اخراج میں کمی ناگزیر
حیدرآباد ۔ 27 ستمبر ۔ شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد کو کبھی باغوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ اس کے سرسبز و شاداب ماحول پر سارے ملک میں رشک کیا جاتا تھا۔ قطب شاہی و آصفجاہی حکمرانوں کی بدولت ہی آج بھی ہمارے شہر میں کچھ سرسبز و شادابی باقی ہے اور اس معاملہ میں حیدرآباد ملک کے پانچ سرفہرست شہروں میں شامل ہے۔ اس کے باوجود آج شہری اپنے تاریخی شہر میں فضائی آلودگی کو لے کر پریشان ہیں۔ شہر کو صاف ستھرا اور سرسبزو شاداب رکھنا نہ صرف حکومت بلکہ شہریوں کا بھی فریضہ ہے۔ گذشتہ دو تین دہوں کے دوران آبادی میں اس قدر اضافہ ہوا کہ باغوں کے اس شہر میں باغات تو غائب ہوگئے لیکن بلند و بالا عمارتوں کے شہر میں جنگل (کنکریٹ کے جنگل) دکھائی دینے لگے ہیں۔ شہر میں امراض شش کے ماہر ڈاکٹروں سے لے کر عام فزیشن اور ماحولیاتی تبدیلی پر قریبی نظر رکھنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہیکہ گذشتہ 4 برسوں کے دوران ہمارے شہر میں فضائی آلودگی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ نیشنل ایر کوالیٹی اسٹانڈرڈ (قومی فضائی معیار) کے پیمانے کے مطابق گرد و غبار کے ذرات کی شرح اوسط سالانہ 60 ug/m3 سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے لیکن آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ ہمارے شہر میں گذشتہ سال 2012-13ء میں یہ سطح 87 مائیکرو کیوبک میٹر سے زیادہ ریکارڈ کی گئی جو مقررہ پیمانہ سے 40 تا 45 فیصد زیادہ ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہیکہ حیدرآباد میں امراض گردہ اور پھیپھڑوں کے عارضہ میں مبتلاء مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ان امراض کیلئے شہر میں بڑھتی فضائی آلودگی بھی ذمہ دار ہے۔ پولیویشن کنٹرول بورڈ کے سائنسداں جہاں میٹرو ریل کے تعمیری کاموں کو فضائی آلودگی میں اضافہ کی ایک وجہ قرار دیتے ہیں وہیں غیرسرکاری تنظیموں کے جہدکار شہر میں گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ پولویشن کنٹرول بورڈ کے سائنسدانوں کے خیال میں میٹرو ریل سے جہاں ٹریفک میں زبردست خلل پڑا ہے، وہیں گذشتہ دو برسوں سے فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹروں کے خیال میں فضائی آلودگی کے باعث امراض تنفس کے مریضوں میں سالانہ 15 تا 20 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔ حال ہی میں اے پی پی سی بی کے سینئر ماحولیاتی سائنسداں رمیش چندرا نے واضح طور پر کہا ہیکہ میٹرو ریل کیلئے جاری تعمیرات سے آلودگی کی سطح میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے خیال میں فضائی آلودگی خاص طور پر کاربن کے اخراج پر قابو پانے شجرکاری بہت ضروری ہے۔ اچھی بات یہ ہیکہ کے سی آر حکومت نے آئندہ تین برسوں میں ساری ریاست میں مزید 230 کروڑ پودے لگانے کا منصوبہ بنایا ہے جس میں سے 10 کروڑ پودے یا درخت حیدرآباد میٹرو پولیٹین ڈیولپمنٹ اتھاریٹی کے حدود میں لگائے جائیں گے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ فضائی آلودگی سے عالمی سطح پر ہر سال لاکھوں اموات ہوتی ہیں۔ ان حالات میں ہمارے شہر میں شجرکاری کی سخت ضرورت ہے۔ خود ہم اپنے گھروں میں چھوٹے چھوٹے پودوں کے کنڈے رکھتے ہوئے ماحول کو صاف ستھرا رکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ شہر میں کچرا کی بروقت نکاسی بھی ضروری ہے۔ اس کیلئے جی ایچ ایم سی اور عوام دونوں کو اپنا فرض ادا کرنا چاہئے۔ شہر کی سڑکوں پر ہزاروں ٹن کچرا پھیلا رہتا ہے۔ حال ہی میں گنیش جلوس کے بعد صرف ایک دن میں 3000 ٹن سے زائد کچرہ شہر کی سڑکوں سے اٹھایا گیا۔ دوسری طرف حسین ساگر سے گنیش وسرجن کے بعد 4 ہزار ٹن ناکارہ مواد کی نکاسی کی گئی۔ بہرحال عوام یہی چاہتے ہیں کہ HMDA کے حدود میں جو 400 چھوٹی بڑی جھیلیں ہیں، ان کی صفائی اور تحفظ کا بھی خیال رکھا جائے۔