شہر میں سنگ سیلو ، سنگ مرمر پر کندہ کاری کے کام کی آج بھی مانگ

حیدرآباد میں سنگ تراشی کے نادر و نایاب نمونے معظم جاہی مارکٹ میں کندہ کاری کے ماہرین کی کثرت
حیدرآباد ۔ 28 ۔ مئی : ہندوستان میں مسلم حکمرانوں نے بلالحاظ مذہب و ملت فن کاروں بالخصوص دست کاروں اور فنون لطیفہ سے جڑے ماہرین کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کی ہے جہاں تک فنون لطیفہ کا سوال ہے ہمارے ملک میں فن کندہ کاری کی بہت زیادہ اہمیت رہی اس فن سے وابستہ آرٹسٹوں نے ایسے ایسے شاہکار نمونے پیش کئے جنہیں دیکھ کر دنیا آج بھی حیران رہ جاتی ہے ۔ یادگار محبت تاج محل اس کی شاندار مثال ہے حیدرآباد دکن کو بھی اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ یہاں کی قطب شاہی اور آصف جاہی حکومتوں نے پتھروں پر کندہ کاری کے فن کی بھر پور حوصلہ افزائی کی ۔

اس ضمن میں تاریخی مکہ مسجد ، مسجد چارمینار ( چارمینار ) ، جامع مسجد چارمینار ، مسجد جودی کنگ کوٹھی ، عثمانیہ یونیورسٹی ، آندھرا پردیش ہائی کورٹ ( عدالت العالیہ ) ، جامعہ نظامیہ ، مقبرہ پائیگاہ اور کئی سرکاری محکمہ جات کے دفاتر کے علاوہ شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد اور اس کے اطراف و اکناف مرجع خلائق بنی درگاہیں آستانے اور خانقاہوں کی مثالیں دی جاسکتی ہیں ۔ جہاں پتھروں پر نقاشی و خطاطی کا جو نازک کام کیا گیا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ ہندوستان میں سنگ مرمر ، سنگ سیلو ، سنگ سیاہ ، گرانائٹ ، اٹالین ماربل ، سنگ شاہ باد وغیرہ پر خطاطی اور کندہ کاری کے لیے حیدرآباد کو ایک خاص مقام حاصل ہے ۔ اس شہر میں پتھروں پر کندہ کاری Stone Engraving کی 50 تا 60 دکانات ہیں جو 200 تا 300 خاندانوں کے لیے ذریعہ آمدنی بنی ہوئی ہیں ۔ قارئین ۔ حیدرآباد میں سب سے زیادہ ماربل شاپس اور مرکز کندہ کاری معظم جاہی مارکٹ میں واقع ہیں ۔ جہاں قبور کی تختیوں سے لے کر نام کی تختیاں ، سنگ افتتاح ، سنگ بنیاد تیار کئے جاتے ہیں ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی

بڑے بڑے سرکاری دفاتر میں کئے جانے والے پتھر کا کام تقریبا اسی علاقہ کے ماہر کاریگر انجام دیتے ہیں ہم نے اس سلسلہ میں شہر بلکہ ریاست کی سب سے قدیم ماربل شاپ تاج ماربل کے ذمہ داروں سے بات کی ۔ حیدرآباد میں فن کندہ کاری میں دو شخصیتیں بہت زیادہ ماہر سمجھی جاتی تھیں ۔ وہ جناب حضور علی مرحوم اور سید کریم الدین مرحوم ہیں ۔ ان کے بارے میں شاہی گھرانوں اور امراء طبقہ میں یہ بات مشہور تھی کہ یہ کسی بھی پتھر کو تراش کر اس نزاکت سے اس پر کندہ کاری کرتے تھے محسوس ہوتا کہ پتھر بھی بولنے لگے ہیں ۔ راقم الحروف نے جناب سید کریم الدین مرحوم کے فرزند جناب سید رکن الدین اور جناب سید سلیم الدین سے بات کی ۔ جناب رکن نے بتایا کہ ان کے پھوپھا حضور علی کی آگرہ سے آمد کے بعد ان کے والد سید کریم الدین نے پتھروں پر کندہ کاری کا کام شروع کیا یہ تقریبا 70 سال پہلے کی بات ہے ۔ یہ دونوں شاہی خاندان کے مرحوم ارکان کی قبور کے کتبے تیار کرتے ، قبور اور مقبروں پر سنگ مرمر اور سنگ سیلو و دیگر پتھروں کا ایسا نازک کام کرتے کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے ۔ چنانچہ شہر کی کئی مساجد بشمول مکہ مسجد ، آرٹس کالج عثمانیہ یونیورسٹی ، ہائی کورٹ اور تقریبا سرکاری محکمہ جات میں پتھر کا جو کام ہے وہ ان ہی ماہرین کی مہارت کا نتیجہ ہے ۔ حیدرآباد کی بیشتر تاریخی عمارتوں اور سرکاری دفاتر کے سنگ افتتاح اور سنگ بنیاد ان ہی کے ہاتھ سے تیار کردہ ہیں ۔

جناب رکن الدین نے بتایا کہ ماضی میں فرمان شاہی بھی پتھر پر کندہ کروائے جاتے تھے جس کا مقصد اس فرمان کی اہمیت ظاہر کرنا ہوتا تھا ۔ ان کے خیال میں سقوط حیدرآباد کے بعد اگرچہ حالات بالکل بدل گئے تھے لیکن اس ضمن کے ماہرین پر زیادہ فرق نہیں پڑا ۔ اس سلسلہ میں وہ بتاتے ہیں کہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو عثمانیہ میڈیکل کالج کی کئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے تب آئے تھے وہ اس کے سنگ بنیاد کی خوبصورتی کو دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے جو ان کے والد سید کریم الدین اور ان کے پھوپھا حضور علی صاحب کے فن کا نتیجہ تھی ۔ جناب سید رکن الدین کے مطابق حضرت بندہ نواز گیسودراز کی بارگاہ پر آپؒ کے جو ارشادات سنگ سیلو اور سنگ مرمر پر کندہ کروائے گئے تھے وہ آج بھی خاص و عام کی توجہ کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جناب سیدکریم الدین مرحوم کی تیسری نسل اس فن سے جڑی ہوئی ہے ۔ سید کریم الدین کے بڑے فرزند سید امیر الدین ابتداء میں اس فن سے وابستہ رہے ۔ لیکن نظام کالج میں ملازمت کے بعد انہوں نے اس پیشے سے دوری اختیار کی ۔ خود رکن الدین فلمی دنیا سے وابستہ رہے ۔ 12 فلموں میں اسسٹنٹ ڈائرکٹر اور تین فلموں کی ہدایت دینے کے بعد پھر اس کاروبار سے وابستہ ہوگئے ۔

لیکن عملی طور پر ان کے دوسرے بھائی سید نعیم ، سید وحید الدین ، سید فرید الدین ، سید سلیم الدین اور سید معز الدین اس پیشہ میں سرگرم ہیں ۔ جناب رکن الدین کا کہنا ہے کہ ابتداء میں شہر میں صرف آگرہ اور تاج ماربل تھے اور پھر دوسروں نے بھی سنگ افتتاح سنگ بنیاد ، قبور کے کتبے اور ناموں کی تختیاں بنانے کے ادارے کھول لیے ماضی کے اوراق پلٹتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ قلی قطب شاہ سے لے کر آصفجاہی حکمرانوں ہر کسی کے تعمیری کاموں کا جو سنگ بنیاد یا سنگ افتتاح مقبرے ہوا کرتے تھے ان میں سنگ تراش فن خطاطی و نقائشی کا غیر معمولی کام کیا جاتا تھا ۔ اس سلسلہ میں گنبدان قطب شاہی اور مقبرہ پائیگاہ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ لیکن اب ٹکنالوجی کے ساتھ خطاطی کا کم استعمال ہورہا ہے ۔

عصری مشنری کے ذریعہ الفاظ کندہ کئے جارہے ہیں ۔ اکثر لوگ سنگ بنیاد اور سنگ افتتاح میں اسٹیل کے حروف استعمال کررہے ہیں جب کہ قبور کے کتبوں کی تیاری کے کام پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔ ہاں مہنگائی بڑھ جانے کے باعث سنگ مرمر جو کبھی 3 تا 5 روپئے مربع فیٹ ہوا کرتا تھا آج 80 روپئے مربع فیٹ ہوگیا ہے ۔ زیادہ تر سنگ سیلو پر کام کیا جاتا ہے کیوں کہ سنگ مرمر اور گرانائٹ پر خرچ زیادہ آتا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اٹلی سے بھی سنگ درآمد کیا جارہا ہے جب کہ راجستھان سے مکھرانا ، کھمم اور گرانائٹ وغیرہ حیدرآباد لایاجاتا ہے ۔ جناب رکن الدین نے بتایا کہ ملک پیٹ ، معظم جاہی مارکٹ ، مصری گنج ، بی ایچ ای ایل ، یوسف گوڑہ ، بندلہ گوڑہ وغیرہ میں اس قسم کی دکانات کھل رہی ہیں لیکن تاج ماربل ، کوہ نور ، بھارت ، راجستھان ، آر کے ماربل ، آگرہ ماربل ، انڈین ماربل اور زینت ماربل قدیم دکانات ہیں ۔ جو ایک طرح سے اس فن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔ ماضی اور حال کے فن کاروں میں یہی فن ہے کہ پتھروں کو بھی اپنے فن سے پر اثر بنا دیتے جب کہ آج ہر کوئی کمرشیل ہوگیا ہے ۔ ہر کسی کو فن کی نہیں بلکہ دھن کی فکر لاحق ہے ۔ اور جہاں تک قبور کے کتبوں کا سوال ہے آج یہ اس لیے ضروری ہوگئے ہیں کہ لینڈ گرابرس شہر خموشاں کو بھی نہیں چھوڑتے ۔۔