شہر حیدرآباد کو ترقی

حیدرآباد نے اپنی ترقی کے لئے آج کے حکمرانوں سے اگر کوئی لفظ سب سے زیادہ سنا ہے تو وہ ہے اسے عالمی سطح کی ترقی دینا ہے ۔ ورلڈ کلاس سٹی بنانے کا وعدہ اور عزم ماضی میں کانگریس ، تلگودیشم حکمرانوں نے ظاہر کیا تھا اب تلنگانہ ریاست وجود میں آنے کے بعد نئے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راو بھی شہر حیدرآباد کو عالمی درجہ پر ترقی دینا چاہتے ہیں ۔ اپنی حکمرانی کا پہلا قدم انھوں نے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے عہدیداروں کے ساتھ اجلاس طلب کرتے ہوئے اُٹھایا ۔ انھوں نے بلدی عہدیداروں کو ہدایت دی کہ شہر میں عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کریں۔ موسم برسات سے پہلے بلدی مسائل کی جنگی خطوط پر یکسوئی کو یقینی بنائیں۔ عوام کو بہتر بلدی سہولتوںکی فراہمی کے لئے حکومت کے پاس فنڈس کی کمی نہ ہونے کا ادعا کرتے ہوئے چیف منسٹر نے اپنے نیک ارادوں کے ذریعہ ایک اور انقلاب یعنی شہر میں صاف صفائی بہتر نظم و نسق لانا چاہتے ہیں۔

حیدرآباد شہر کے تعلق سے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ سابق کی کانگریس حکومتوں تلگودیشم حکومتوں نے اس شہر کو کھنڈر میں تبدیل کردیا تھا ۔ اب ٹی آر ایس نے مورچہ سنبھالا ہے تو شہر کو پھر سے عالمی درجہ تک ترقی دینے کی خوش خبری سنائی جارہی ہے ۔ جس شہر میں روزآنہ گھنٹوں غیرمعلنہ برقی کٹوتی ہوتی ہے ، رہائشی علاقوں اور محلوں میں پینے کے پانی کی سربراہی کو فراموش کردیا گیا ہے ۔ ڈرینج کی موریوں سے رات دن گندہ پانی سڑکوں ، گلیوں میں اُبل کر بہتا رہتا ہے ۔ بے ہنگم ٹریفک ، خراب سڑکوں نے عوام کے سفر کو جان لیوا بنادیا ہے ۔ فضائی آلودگی ، کچرے کے انبار شہریوں اور سیاحوں کا بدبودار استقبال کرتے ہیں تو شہر کے حق میں عالمی درجہ کی ترقی کا لفظ ایک مضحکہ خیز بات معلوم ہوتی ہے ۔ شہریوں کو 24 گھنٹے کرشنا کا پانی سربراہ کرنے کا پراجکٹ پورا نہیں ہوا ۔ برقی سربراہی کو یقینی بنانے کا کام پورا نہیں کیا گیا لیکن نئی حکومت کے عزائم سے امید ضرور پیدا ہوئی ہے کہ شہر کو ترقی نہ سہی موجودہ سطح پر صاف صفائی اور بہتر بلدی انتظامات فرائم کئے جائیں تو شہریوں کو راحت ملے گی ۔ کے سی آر نے تلنگانہ بنانے کا خواب دیکھا تو وہ اس میں کامیاب ہوگئے اب حیدرآباد کو ورلڈ کلاس سٹی بنانے کا خواب رکھتے ہیں تو یقینا شہر کی ترقی کے لئے کام ہوں گے ۔ سابق میں راج شیکھر ریڈی حکومت نے پرانے شہر کی ترقی کیلئے 200 کروڑ روپئے کا پیاکیج تیار کیا تھا اس پیاکیج کا کوئی نشان نظر نہیں آتا ۔ شہر کو عالمی درجہ کا موقف عطا کرنے کیلئے شہریوں کو 2050 ء تک انتظار کرنے کا مشورہ دینے والے کے سی آر کے سامنے کونسے منصوبے ہیں یہ غیرواضح ہے۔حیدرآباد کی 500 سالہ تاریخ میں حالیہ برسوں کے دوران سیاسی حکمرانوں نے تباہ کن حالات پیدا کردیئے ہیں۔ گنجان اور سلم (Slum)آبادیوں کو اندھا دھند طریقہ سے بسانے والوں کو کھلی چھوٹ دے کر ووٹ بنک کی سیاست کرنے والوں نے شہر کی خوبصورتی کو لوٹ لیا ہے ۔

حضور نظام کے دور میں سب سے خوبصورت و متمول شہر کی حیثیت سے مشہور حیدرآباد موتیوں کے شہر کو کوڑادان کی نذر کردینے والے سرکاری نظم و نسق نے حد سے زیادہ ناانصافی کی ہے ۔ اس وقت بھی شہر حیدرآباد مالیہ متحرک کرنے کے معاملہ میں دیگر شہروں سے آگے ہے مگر اس کے فراہم کردہ مالیہ پر سیاستدانوں نے ہاتھ صاف کرلیا ہے ۔ تلنگانہ کی نئی حکومت کو ماضی کی خرابیوں کو دور کرکے حیدرآباد کے مالیہ کو دیانتدار طورپر استعمال کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ چندرشیکھر راؤ حکومت کو بہترین بیوریوکریٹس کی مدد سے شہریوں اور تلنگانہ عوام کے ئے عمدہ منصوبے بنانے ہوں گے ۔ پرنسپل سکریٹری کی خدمات یا دیگر عہدیداروں کی اسپیشل ڈیوٹی کے ذریعہ نظم و نسق کے کاموں میں اعانت کرتے ہوئے بہترین خدمات کی شاندار شروعات کی جاسکتی ہے ۔ نئی کابینہ کے وزیر داخلہ نرسمہا ریڈی ہوں یا وزیر فینانس ایٹالہ راجندر کو اپنے قلمدانوں کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا ۔ عوام کے صحت عاملہ کے معاملوں میں وزیر صحت ٹی راجیا کو صحت مندانہ اقدامات کرتے ہوئے شہریوں کے لئے حفظان صحت کا ماحول فراہم کرنا چاہئے ۔ نئی ریاست تلنگانہ کو 42 کے منجملہ 40 آئی اے ایس عہدیدار حاصل ہیں تو ان کی خدمات کو موثر اور یقینی بنانے کیلئے توجہ دینی ہوگی ۔ حیدرآباد میں آئندہ 25 سال کے دوران 2 لاکھ کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کا نشانہ مقرر کرنے کا عزم رکھنے والی حکومت جب اپنے مقصد میں کامیاب ہوگی تو بہرصورت شہر کو عالمی درجہ کی ترقی دینے کا منصوبہ بھی پورا ہوگا ۔